مباحث، مارچ ۲۰۱۲ ء
حرف اول
سال ۲۰۱۲ ء کی پہلی دوماہی (جنوری، فروری) میں قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے اہم موضوعات اور واقعات پر دینی مکاتب فکر کے نمائندہ جرائد میں پیش کیے گئے تجزیوں اور تبصروں کا خلاصہ آئند ہ صفحات میں پیش کیا گیا ہے۔ قارئین کی سہولت کے پیش نظر یہاں اس کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔
اس دو ماہ کے عرصہ میں دینی جرائد نے قومی امور کے ذیل میں حال ہی میں پاکستان میں بننے والے ایک نئے پلیٹ فارم دفاع پاکستان کونسل کے حوالے سے اظہار خیال کیا ہے۔ ضرب مؤمن نے اس اتحاد کو خوش آئند قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ پاکستان کی بقا کے لیے اس طرح کے اتحاد وقت کی ضرورت ہیں۔اگر ایک متفقہ آئین بنا کر یہ اتحاد طویل المدتی مقاصد کے لیے کام کرے تو اس کا فائدہ دو چند ہو جائے گا ۔ تاہم اس طرح کے فورمز کو اسٹیبلشمنٹ کی کار روائی کہہ کر سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے لہذا اس کا دیر پا قیام ہی اس طرح کے پروپیگنڈے کا مؤثر جواب ہو گا کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ اس قسم کے کام اگر کرے گی بھی تو عارضی بنیادوں پر ہی کرے گی۔ دیگر موضوعات میں سے ایک پاکستان کی وفاقی کابینہ کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیناہے۔ اس حوالے سے ہفت روزہ اہلحدیث لاہور کے مضمون نگار نے لکھا ہے کہ بھارت کبھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا اس لیے اس کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے بجائے برابری کی سطح پر تعلقات رکھنے میں ہی بہتری ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کے لیے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کی جانب سے مائک مولن کو لکھے جانے والے خط کے حوالے سے جاری میمو اسکینڈل کیس پر بھی ایک جریدے نے مضمون شائع کیا ہے۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ پی پی حکومت کی جانب سے منصور اعجاز کے پاکستان آنے میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ بلوچستان کی پیچیدہ صورتحال اور امریکی سینیٹر کی جانب سے امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی جانے والی قرار داد پر صرف ضرب مؤمن نے اسے اپنے اداریے میں اظہار خیال کیا ہے۔
البتہ قومی نوعیت کے کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو جرائد کی توجہ حاصل نہ کر سکے جن میں بیسویں دستوری ترمیم، لاہور میں ناقص ادویہ کی وجہ سے ہونے والی اموات، وزیر اعظم توہین عدالت کیس، سینٹ انتخابات، قومی اسمبلی میں نئے صوبوں کے قیام کے لیے پیش ہونے والی قرار داد، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ جیسے مسائل اہمیت کے حامل ہیں۔
بین الاقوامی امور میں اس بار زیادہ موضوعات دینی جرائد کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ صرف دو ہی موضوعات ایسے ہیں جن پر اظہار خیال ہوا ہے۔ مصر میں انتخابات اور اسلام پسندوں کی فتح کا موضوع دو جرائد میں جگہ پاسکا۔ ترجمان الحدیث نے اسے اہم پیش رفت قرار دیا ، تاہم اس کی زیادہ تر توجہ سلفی سوچ کی حامل النور پارٹی پر رہی، جبکہ افکار العارف نے بھی اس کامیابی کو سراہا ہے اور اخوان المسلمون کو با خبر کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکا اس کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے اس لیے اسے ہر قدم بہت ہوش مندی سے اٹھانا چاہیے۔ تاہم النور پارٹی کی کامیابی سے متعلق جریدے کا خیال ہے کہ ان کو پروموٹ کرنا امریکہ کی مجبوری ہے تا کہ ایرانی طرز کے کسی انقلاب کے امکانات کو ختم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ افغانستا ن کے موضوع پر ایک جریدے ضرب مؤمن نے اظہار خیال کیا ہے۔ جریدے نے لکھا ہے کہ افغان جنگ سے اتحادیوں کی کنارہ کشی امریکہ کے لیے باعث تشویش ہے تاہم اس کا بنیادی سبب خود امریکہ کا رویہ ہے ۔
جواب دیں