وفاقی بجٹ 2022-23: ایک جائزہ
وفاقی بجٹ کے اعدادو شماربے انتہاغیر یقینی ہیں، جن کے تبدیل ہو جانے کے امکانات ہیں :آئی پی ایس سیمینار
وفاقی بجٹ کے اعدادو شماربے انتہاغیر یقینی ہیں، جن کے تبدیل ہو جانے کے امکانات ہیں :آئی پی ایس سیمینار
دس جون کو پیش کیے جانے والے عبوری بجٹ کے اعداد و شمار انتہائی غیر یقینی ہیں اور ماہ کے آخر میں منظور ہونے والے حتمی بجٹ تک یہ برقرار نہیں رہیں گے۔ ان کے اسی طرح رہنے کے امکانات کم ہیں۔ اس وقت موجودسیاسی عدم استحکام نے اقتصادی عدم استحکام کے ساتھ مل کر ایک مؤثر بجٹ کی منصوبہ بندی اور منظوری کے لیے بہت نازک صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔
اس بات کا مشاہدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیر اہتمام ’فیڈرل بجٹ 2022-23: ایک جائزہ‘ کے عنوان سے 16 جون 2022 کو ہونے والے ایک ہائبرڈ سیمینار کے دوران کیا گیا جس کا انعقاد آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ اور اس کی معاشی سمت کا پالیسی سازی کے نظریے سے جائزہ لینے کے لیے کیا گیا تھا۔
اجلاس کی مشترکہ صدارت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر عبدالصبور، ڈین سوشل سائنسز، پیر مہر علی شاہ ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی، راولپنڈی اور خالدرحمٰن، چیئرمین آئی پی ایس نےادا کیے جبکہ اس اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں عباس رضا، سابق چیئرمین، نیشنل ٹیرف کمیشن؛ ڈاکٹر پرویز طاہر، سابق چیف اکانومسٹ ، پلاننگ کمیشن آف پاکستان؛ ڈاکٹر وقار مسعود خان، سابق سیکرٹری خزانہ؛ ظہیرالدین ڈار، بانی، سینٹر فار انٹرنیشنل انٹرپرینیورشپ اینڈ ٹریڈ؛ ڈاکٹر سلمان احمد شیخ، ڈائریکٹر اسلامک اکنامکس پروجیکٹ اور مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری شامل تھے۔
اس کے علاوہ ظفر الحسن الماس، جوائنٹ چیف اکانومسٹ، پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے بھی بحث میں حصہ لیا۔
ڈاکٹر پرویز طاہر کا موقف تھا کہ موجودہ بجٹ کی تیاری کے پیچھے کسی سنجیدگی اور حکمت کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کے اہداف مقرر کرنے کے باوجود پاکستان اپنے معاشی چیلنجوں اور اقتصادی ڈھانچے کی حدود کے باعث ترقی کی طرف نہیں بڑھ رہا۔ حقیقی ترقی کے ظاہر ہونے سے پہلے بہت سے مسائل اور چیلنجز کچھ عرصے تک موجود رہیں گے۔
انہوں نے مزید کچھ چیلنجوں کی نشاندہی کی جن میں طویل مدتی سرمایہ کاری کی کم شرح اور ترقی کے ہدف کی سمت شامل ہے۔ پانچ فیصد کی کم شرح نمو پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چھ فیصد سے زیادہ شرح نمو پاکستان کے لیے بحران پیدا کر سکتی ہے۔
بجٹ کی منظوری یا منصوبہ بندی میں آئی ایم ایف کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کی مداخلت اور کردار کے بغیر اپنی منصوبہ بندی کرتا تو اس کی پوزیشن مختلف ہوتی۔
ظہیرالدین ڈار نے نشاندہی کی کہ اس بجٹ کے اثرات اور نتائج کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ اعداد و شمار میں تبدیلی متوقع ہے اور اصل تصویر مالی سال کے آخر میں اکاؤنٹس بند کرنے سے واضح ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے پہلے ہی ڈیفالٹ حالت سے گزر رہا ہے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے اشرافیہ کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی، جبکہ موجودہ حالات میں غریب طبقہ ہی یہ قیمت چکا رہا ہے۔
ٹیکس چوری کے بارے میں اپنی راِئے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح ہر سال وصولی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب کم ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت ہر سال کم ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافہ، ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب میں کمی اور معاشی سرگرمیوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
انہوں نے اس اہم مسئلے پر متعلقہ سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کی لاعلمی کو بھی اجاگر کیا۔
ڈار نے کہا کہ یوکرین کے تنازع کی وجہ سے پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ملک کو اپنی معیشت میں بروقت سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ پیداواری صلاحیت بڑھ سکے۔
عباس رضا کا خیال تھا کہ بجٹ ایک طرف تجارتی خسارے اور دوسری طرف غیر منظم غیر ملکی اور ملکی قرضوں سے دوچار معیشت کی انتہائی تاریک حالت کو پیش کرتا ہے۔ مختلف مسائل پر بجٹ کی خاموشی کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے قرضوں کی واپسی، گھریلو محصولات کو متحرک کرنے، صنعتی بحالی، پی او ایل کی قیمتوں پر قابو پانے، اور افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے مؤثر پالیسیاں اور اقدامات تجویز کرنے میں ناکامی کو اجاگر کیا۔
مرحوم وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق کے کالے دھن پر کیے گئے مشاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے رضا نے وضاحت کی کہ کس طرح بدعنوانی اور ٹیکس چوری مزید معاشی چیلنجوں کا باعث بنتی ہے جن میں غیر منظم مالیاتی قرض، روپے کی قدر میں کمی، تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کو پورا کرنا شامل ہیں۔
استحکام کے لیے حکومت کے اقدامات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات نہ تو موثر ہیں اور نہ ہی پائیدار کیونکہ وہ حقیقی استحکام کا مقصد پورا نہیں کرتے۔ انہوں نے انہیں استحکام کے لیے جلد بازی میں اٹھائے گئے اقدامات قرار دیا جن کے مضمرات میں بے روزگاری میں اضافہ، کمزور صنعتیں، مصنوعی افراط زر، سماجی عدم توازن، جرائم، سیاسی عدم استحکام اور معاشی تباہی کا خطرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر وقار مسعود کا موقف تھا کہ بجٹ عوام کی شکایات کو دور کرنے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے تجارتی خسارے، محصولات کی پیداوار، ٹیکس سے جی ڈی پی کے تناسب کے مسائل اور حکومت کے اخراجات پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ بجٹ کے اعداد و شمار کی خرابی کا جائزہ لیتے ہوئے، انہوں نے نشاندہی کی کہ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے کسی بھی پیداواری سرمایہ کاری کے لیے آپشن نہیں بچا ہے۔
ڈاکٹر سلمان احمدنے پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگراموں اور سماجی تحفظ کے شعبوں کے لیے بجٹ کے کم تناسب پراپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔انہوں نے بتایا کہ اس سال صحت، سائنس اور تعلیم جیسے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ کے تمام شعبوں کےبجٹ میں کمی کی گئی ہے۔
بجٹ کے اعداد و شمار کی تقسیم کاتجزیہ پیش کرتے ہوئے، انہوں نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ اس کی تقسیم میں کتنی خامیاں ہیں اور اہداف کا حصول کتنا مشکل ہوگا۔
صنعتی نجکاری میں نظر انداز کیے گئے شعبوں اور سماجی اور عوامی شعبوں میں سرمایہ کاری پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے ٹیکس چوری، سبسڈی میں کمی، مہنگائی اور غریبوں پر بوجھ کے حوالے سے بجٹ کی خامیوں کی نشاندہی کی۔
حامد حسن نے توانائی، پانی اور خوراک کے تحفظ کو نظر انداز کر دیے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ انتہائی نازک صورتحال کے باوجود ماحولیاتی موافقت کے لیے بجٹ میں کوئی واضح سمت دکھائی نہیں دیتی۔ اگرچہ پاکستان پانی اور توانائی کے بحران کا شکار ملک ہے، لیکن ان شعبوں کے لیے پیش کردہ برائے نام پالیسیاں آنکھوں میں دھول جھونکنا ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ نظام کی نا اہلی اور توانائی، پانی اور فوڈ سیکیورٹی کے انتظامات میں کمی کی وجہ سے ملک الٹی سمت میں جا رہا ہے۔
آخر میں، انہوں نے وسائل کے تحفظ ، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
ڈاکٹر عبدالصبور نے اپنے اختتامی کلمات میں پائیدار ترقی کے اہداف اور بین الاقوامی یقین دہانیوں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جن کا پاکستان پابند ہے۔ زراعت کا شعبہ، جس میں وسیع تحقیقی اور سائنسی خلاء، موجود ہے اور کرپٹو کرنسیوں کی نشاندہی کی جو کہ آمدنی پیدا کرنے کا زبردست ذریعہ ثابت ہو سکتاہے۔ انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس بجٹ میں ان اہم پہلوؤں کے لیے کسی سمت کا تعین نہیں کیا گیا۔
خالد رحمٰن نے نشست کے اختتام پر کہا کہ موجودہ حالات – جو کہ برسوں کی مسلسل خراب گورننس کا نتیجہ ہیں – نے موجودہ حکومت کو جکڑ کر رکھ دیا ہے کہ بجٹ کی پلاننگ کے لیے نہ ان کے پاس وقت تھا اور نہ انہیں مناسب ماحول دستیاب ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بجٹ کو ایک مشق سمجھا جائے اور اسے ایک سیاسی معیشت کے موضوع کے طور پر توجہ کا مرکز بنایا جائے تو موجودہ منظر نامے کواچھی تفہیم اور تعمیری نتائج کے ذریعے بہتر کیا جا سکتاہے جو کہ گورننس کے گھمبیر مسائل اور وسائل کے غیر مؤثر انتظام کے باعث دھندلا ہو چکا ہے۔
جواب دیں