تعلیمی ڈائیلاگ فورم 2020ء (FDF2020) ’یکساں نظام تعلیم: تصور سے تنفیذ تک‘ ماہرین کا ایک ہی قومی نصاب کی شفافیت اور جامع ترویج و ترقی پر زور
ملک بھر میں ایک ہی قومی نصاب کی ترقی کے لیے اب تک ہونے والے کام کی تعریف کرتے ہوئے ماہرین تعلیم اور تعلیمی پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے اہل علم نے ایک تجزیاتی گفتگو میں مشورہ دیا کہ اس عمل کو زیادہ شفاف اور جامع بنایا جائے اور اس سے متعلقہ مزید فریقین کو بھی اس کام میں شامل کیا جائے۔
ملک بھر میں ایک ہی قومی نصاب کی ترقی کے لیے اب تک ہونے والے کام کی تعریف کرتے ہوئے ماہرین تعلیم اور تعلیمی پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے اہل علم نے ایک تجزیاتی گفتگو میں مشورہ دیا کہ اس عمل کو زیادہ شفاف اور جامع بنایا جائے اور اس سے متعلقہ مزید فریقین کو بھی اس کام میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ ان عناصر سے محتاط رہے جن کی سوچ یہ ہے کہ ایک ہی قومی نصاب سے سیکولرزم کی بجائے قومی ثقافت، تاریخ اور اقدار کو تقویت پہنچے گی؛ وہ اشرافیہ جو اپنی نسلوں کو دوسرے معاشرتی طبقات سے آگے بڑھانا چاہتی ہے؛ غیرملکی فنڈ حاصل کرنے والے وہ عناصر جو پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی نظام پر مغربی ثقافت کا غلبہ چاہتے ہیں اور وہ لوگ جو تجارتی مفاداتی گروہوں کی شکل میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔
مقررین کی جانب سے مختلف نوعیت کے دیگر معاملات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا جن میں نجی اشاعتی اداروں کا منفی کردار؛ اردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے لازمی مضامین کے بغیر اے لیول کو انٹرمیڈیٹ کے مساوی درجہ حاصل ہونے کی صورتِ حال اور اس وقت پاکستان میں او لیول اور اے لیول کی کتابوں کو کسی نظام کے تحت لانے میں سرکاری ادارے کی نگرانی کا نہ ہونا شامل ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئی پی ایس] کے ۱۶ فروری ۲۰۲۰ کو منعقد کردہ تعلیمی ڈائیلاگ فورم ۲۰۲۰ میں کیا جس کا عنوان تھا ’یکساں نظامِ تعلیم: تصوّر سے تنفیذ تک‘۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی سابق وفاقی سیکریٹری برائے تعلیم ساجد حسن اور رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد تھے جبکہ دیگر مقررین میں بالخصوص نیشنل کریکولم کونسل [قومی نصابی کونسل] کے مشترکہ تعلیمی مشیر محمد رفیق طاہر، آئی پی ایس کے ایگزیکٹو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن، ڈاکٹر میاں محمد اکرم، پروفیسر راوَ جلیل احمد، سابق وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر وقار مسعود، محمدحسین ملک، ارشد سعید خان، ڈاکٹر محمد سلیم، پروفیسر مہر سعید اختر، ڈاکٹر امیر نواز خان، اور ڈاکٹر محمد شریف نظامی شامل تھے۔
تمام مقررین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ملک بھر میں یکساں تعلیمی کی تشکیل کی طرف پیش رفت بہت اچھا قدم ہے لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے ضروری ہے کہ اسے آئینی تحفظ دیا جائے، اس کی قانونی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے، اس کے سلسلے میں مزید متعلقین سے مشاورت کی جائے اور اس سے متعلق طریقۂ کار اور ذمہ داریوں کا واضح تعین کیا جائے۔ مقرررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ یکساں تعلیمی نظام کی تشکیل و تنفیذایک جامع تعلیمی پالیسی کی بنیاد پر ہونی چاِہیے تھی جس میں قو می ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد تحریر کیے جاتے اور ذریعۂ تعلیم، نصابی کتب، اساتذہ کی تربیت اور پڑھانے کے طریقہ کار پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی۔ مقررین نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ آئینی طور پر اردو کو ہی ذریعۂ تعلیم قرار دیا جاناچاہیے کیونکہ قومی زبان میں بچوں کے لیے سیکھنا اور سمجھنا کئی درجے آسان ہو گا۔ دنیا میں ایسی کئی ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا اور اس کے مثبت نتا ئج سے مستفید ہوئے۔
انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ کچھ عناصر ملک میں یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کی ضرور مخالفت کریں گے، بالخصوص وہ جن کے خیال میں اس قدم سے سیکولر زم کے بجائے قومی ثقافت، تاریخ اور اقدار کو استحکام ملے گا، وہ امراء جو اپنی نسلوں کو دوسروں سے برتر رکھنا چاہتے ہیں، بیرونی امداد پر پلنے والے عناصر جو ملک میں مغربی ثقافت کی ترویج چاہتے ہیں، اور وہ جن کو صرف اپنے مالی مفادات سے غرض ہے۔
مقررین کا مؤقف تھا کہ نجی اسکولوں کی کارپوریٹ نوعیت ہے اور یکساں نظام تعلیم کے نفاذ میں ان کے مفادات ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بہت سی پالیسیاں مرتب کی گئیں لیکن ان پر متعدد عوامل کے باعث عملدرآمد نہیں ہو پایا جن میں فنڈز کی دستیابی بھی شامل ہے۔ چنانچہ پورے ملک میں ایک ہی قومی نصاب کو نافذ کرنے کے لیے ہر سطح پر طاقتور سیاسی عزم انتہائی ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھا طرزِ حکمرانی ہمیشہ سے ایک کمزور عنصر رہا ہے۔ چنانچہ پالیسی سازوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ تعلیمی اہداف کا تعین کرتے وقت کیا کچھ مطلوب تھا اور کیا کچھ عملی شکل میں سامنے آیا۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک ہی قومی نصاب، درسی کتب اور اساتذہ کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم کی غرض سے پیش کی جانے والی تجاویز پر۱۱- ۱۴ فروری ۲۰۲۰ کو نیشنل کریکولم کونسل [قومی نصابی کونسل] کی طرف سے منعقد کردہ چار روزہ ’کانفرنس برائے یکساں نطامِ تعلیم [پہلی سے چوتھی جماعت تک]‘ میں تمام متعلقین، جن میں سرکاری، نجی اور دینی ادارے شامل ہیں، نے بحث کے بعد منظوری دے دی ہے اور اب دستاویز کومکمل کرلینے کے بعد اسے بین الصوبائی وزراء کی کانفرنس میں توثیق کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔
جواب دیں