آئینِ پاکستان 1973 اور اسلام: مارشل لاء، عدلیہ اور پارلیمان کا کردار
زیرِنظر کتاب میں دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ کے ابتدائی تیس سالوں کا یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ دستور کی اسلامی دفعات پر فوجی حکومتیں اور عدلیہ کیسے اثرانداز ہوتے رہے۔ دستوری مسائل پر مبنی چند عدالتی فیصلوں کا ناقدانہ جائزہ کتاب کے موضوعات میں سے ایک ہے۔
مصنّف: ڈاکٹر شہزاد اقبال شام |
کتاب کا تعارف
زیرِنظر کتاب میں دستورِ پاکستان ۱۹۷۳ کے ابتدائی تیس سالوں کا یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ دستور کی اسلامی دفعات پر فوجی حکومتیں اور عدلیہ کیسے اثرانداز ہوتے رہے۔ دستوری مسائل پر مبنی چند عدالتی فیصلوں کا ناقدانہ جائزہ کتاب کے موضوعات میں سے ایک ہے۔ تعبیروتشریح کے ضمن میں تعبیرالنصوص کے فقہی ذخیرےکی روشنی میں عدالتی فیصلوں کا ناقدانہ جائزہ اس کتاب میں ہے ۔ دوسری طرف جدید قانونی دنیا کے مغربی اصولِ تعبیروتشریح (Interpretation of Statutes) کی مدد سے انہی عدالتی نظائر پر بھرپور گفتگو ملتی ہے۔ مصنّف نے اس عرصے کی دونوں فوجی حکومتوں کے دستوری شقوں پرڈالے گئے اثرات کا خوب جائزہ لے کریہ نتیجہ نکالا کہ دو مختلف ذاتی میلانات نے دستور پر ان میلانات کے مطابق ہی اثرات ڈالے۔ تادم تحریر ہونے والی کل چھبیس دستوری ترامیم کا مختصرتعارف بھی ایک باب میں مذکور ہے۔آخر میں مصنف نے دستوری ترامیم کے پارلیمانی اندازکار سے فوجی اسلوب کا موازنہ کرکے مستقبل کی منظرکشی کی ہے۔
مصنّف کا تعارف
مصنّف کتاب شہزاد اقبال شام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے شریعت اور قانون میں سندیافتہ ہیں۔ اسی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی زیرِنگرانی آپ نے دستوری مباحث میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کیں۔ تدریسی زندگی کا مختصر سا عرصہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں گزار کرخود اپنی مادرِ علمی میں تقریباً تین عشروں تک تدریسی و تحقیقی خدمات سرانجام دے کر آپ پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ وہاں انہوں نے متعدد مراسلاتی کورس جاری کرکے کامیابی سے چلائے،کئی کتابوں کے مؤلف ہیں، دنیا کے مختلف حصوں میں آپ نے اسلامی قانون پر کئی تربیتی پروگرام منعقد کرائے اور متعدد عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرچکے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے منسلک ہیں۔
جواب دیں