تیل اور گیس کی تلاش کے فیصلوں پر عمل درآمد میں موجود ابہام کو 18ویں ترمیم پر نظرثانی کرکے دور کرنے کی ضرورت ہے
توانائی کے امور سے متعلق ماہرین اور قانون دانوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں دیے گئے اختیارات پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ ابہام کی شکل میں موجود ان رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے جو تیل اور گیس کی تلاش میں گذشتہ چھ سالوں سے معاملات کو الجھانے کا سبب بن رہی ہیں جس کے نتیجے میں ملکی اقتصادیات کے اس انتہائی اہم شعبے کی سرگرمیاں عملاً جمود کا شکارہوگئی ہیں۔ چھ برس بیت جانے کے باوجود وفاق اور صوبوں کے درمیان قانون سازی اور انتظامی کنٹرول پر جاری کشمکش کے باعث نئے لائسنسوں کا اجرا نہیں کیا جا رہا جس کے نتیجے میں غیرملکی کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد یا تو ملک چھوڑ کر جا چکی ہیں یا اس کے لیے پَر تولے بیٹھی ہے۔
ان خیالات کا اظہار توانائی کے شعبے کے ماہر قانون محمد عارف نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ۴ اکتوبر ۲۰۱۶ کو منعقد ہونے والے اس سیمینار میں مرکزی مقرر کی حیثیت سے کیا جس کا عنوان تھا ”اٹھارویں ترمیم کے تیل اور گیس کی تلاش پر متعین اثرات اور مابعد“۔ اس پالیسی فورم کی صدارت سابق سیکرٹری وزارت پانی و توانائی اور آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن مرزا حامد حسن نے کی اور اس میں پالیسی تجزیہ کاروں، توانائی کے امور پر ماہرین قانون اور سرکاری عہدیداروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
کلیدی مقرر محمد عارف نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ کان کنی، تیل کے کنوؤں اور معدنیات کی ترقی سے متعلق 1948ء کے ایکٹ (سرکاری کنٹرول کا) کی موجودگی میں ،جو کہ ابھی بھی نافذالعمل ہے، 18ویں ترمیم کے بعد بھی قانون سازی اور انتظامی اختیارات کے ضمن میں آئینی طور پر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ چنانچہ صوبوں کے مطالبات درست نہیں ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ملکیت کے معنی رائلٹی میں شرکت کے ہیں، قانون سازی اور انتظامی اختیارات فراہم کرنے کے نہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں صوبوں کے اطمینان کے لیے ایک مؤثر اور مؤقر فعال اداراتی انتظام فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
حامد حسن نے اپنے اختتامی کلمات میں 18ویں ترمیم کے بعد کے مسائل کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو وہ ہیں جو براہِ راست اس ترمیم سے متعلق ہیں اور پھر وہ جو اس ترمیم کی غلط تعبیر یا بدانتظامی، ہوم ورک کی کمی اور متعلقہ حکام کی کوتاہ بینی کے باعث سر اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے تجویز دی کہ کسی ایسی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جو وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان انٹرفیس کی حیثیت سے کام کرے تاکہ اس تنگی داماں اور بداعتمادیوں کا حل نکالا جا سکے جو بدگمانیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
جواب دیں