‘کووِڈ ۱۹: عالمی چیلنج اور قومی ردِ عمل’ کی پہلی نشست
کرونہ بحران کی وجہ سے آنے والاسال پاکستانی معیشت کے لیے مزید تکلیف دہ ہو گا: ماہرین
کرونہ بحران کی وجہ سے آنے والاسال پاکستانی معیشت کے لیے مزید تکلیف دہ ہو گا: ماہرین
کرونہ وائرس کی وبا نے باقی دنیا کے طرح پاکستانی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن اس بحران کے گزرنے کے بعد آنے والا سال بھی ملک کے لیے مزید تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق اُس وقت اسے اصل اور سودی قرضوں کی ادائیگی میں ۱۹ ارب ڈالر کا سامنا ہو گا ، ترسیلات اور برآمدات میں واضح کمی آ چکی ہو گی، اور ایک اندازے کے مطابق تقریباْ ۵۰ لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہوںگے۔
ان خیالات کا اظلار پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے چیف میکرو اکنامسکس ظفرالحسن الماس نے ۱۴ اپریل ۲۰۲۰ کو ‘کووِڈ ۱۹کے پاکستانی معیشت پر اثرات’ کے عنوان سے ہونے والے ایک ویبینار میں اس وپا کی وجہ سے پاکستان کو درپیش چیلنجِز اور ان سے نمٹنے کے ممکنہ طریقوں پر روشنی ڈالتے ہوئَے کیا ۔ اس ویبینار کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس]، اسلام آباد نے ایک ویبینار سیریز ‘کووِڈ ۱۹: عالمی چیلنج، قومی ردِ عمل’ کی پہلی نشست کے طور پر کیا جس کا مقصد کرونہ وبا کی وجہ اثر انداز ہونے والے مختلف پہلووَں کا احاطہ کرنا ہے۔ اس نشست کی صدارت پاکستان کے سابق سیکریٹری اور آئ پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن وقار مسعود خان نے کی۔
الماس کا کہنا تھا کہ اس کرونہ بحران سے گزرنے کے بعد تمام ممالک اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئَے اپنی پالیسیاں مرتب کریں گے جوعالمی تجارت اور روزگار کے مواقع پر منفی طور پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں کی لیکویڈِٹی ، مالی رکاوٹوں کے معاملات، اور آئ ایم ایف پروگرام کے اہداف کو دوبارہ طے کیے جانے جیسے مسائل بھی درپیش ہوںگے۔
ماہرِ معاشیات کے مطابق پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مالی معاملات کا ہو گا ۔ اگلے سال پاکستان کو اصلی اور سودی قرضوں کی مِد میں ۱۹ ارب ڈالر کی بین الاقوامی ادائیگی کرنی ہے جس کا انتظام ااسے بین الا قوامی مارکیٹ سے نئے قرضوں کی صورت میں کرنا پڑے گا۔ جبکہ مالی معاملات کے سخت ہونے کی وجہ سے بیرونی قرضوں کی دوبارہ مالی اعانت کرنا بہت مشکل ہو گا۔
الماس کا کہنا تھا کہ برآمدات اور ترسیلاتِ زر درآمدات کے مقابلے میں معیشت پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق حکومتِ پاکستان کے اندازے کےمطابق اس سال ۲۴ ارب ڈالر کی برآمدات اور تقریباْ اتنی ہی ترسیلاتِ زر ہونی تھی، مگر موجودہ حالات میں سال کے آخر تک بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے ہونے والی ترسیلاتِ زر کم ہو کر صرف ۲ ارب ڈالر تک رہ سکتی ہیں۔
ابھی تک ملنے والی کے اطلاعات کے مطابق متحدّہ عرب امارآت اور دیگر خلیجی ممالک میں ابھی تک تقریباْ ۳۰،۰۰۰ پاکستانی بے روزگار ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں ابھی اضافہ جاری ہے۔ جبکہ بحران کے بعد کے بھی روزگار کے مواقعوں میں واضح بہتری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ واپس آنے والے تارکینِ وطن کو دوباری ایڈجسٹ کرنا بھی بہت مشکل ہو گا۔
پاکستان کے مزدوری کرنے والوں کی تعداد ۶۳ ملین ہے جس میں سے غیر رسمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ۴۶ ملین لوگوں کے روزگار کو خطرہ لاحق ہے اور محتاط ترین اندازوں کے مطابق بھی کم از کم ۳ ملین لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
الماس کا کہنا تھا اس سلسلے میں ملک کو ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ درآمدات اور برآمدات کے شعبوں میں ہو گا جس میں ۱ سے ۱۔۵ بلین ڈالر نقصان کا اندیشہ ہے۔ مالی سال کے چوتھائ حصّے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ ۱۔۵ سے ۲ بلین ڈالر ہے لکین آنے والے وقت میں اس میں واضح اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ برآمدات کا حجم بھی ۳-۵ بلین ڈالر تک سکڑ سکتا ہے۔
البتّہ خوش قسمتی سے ملک کو درپیش موجودہ مالی خسار زیادہ پریشان کُن نہیں ہے اور مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق اس میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے اور درآمدات میں کمی ہونے کی وجہ سے بہتری آئ ہے۔
البتّہ توانائ اور اشیاء کی مقامی طلب میں کمی آنے اور صنعتیں بند ہونے سے سرمایہ کاری سے متعلقہ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے معیشت کو کافی نقصان ہو رہا ہے۔
حکومت کے اندازے مطابق اگر صرف خوراک، ادویات اور پرچون کے کاروباروں کو ہی کھولا جائے تب بھی جی ڈی پی میں ۲ فی صد کی کمی آئے گی۔ پہلے حکومت جی ڈی پی میں ۳۔۳ سے ۳۔۴ پی صد اضافہ کا اندازہ لگا رہی تھی لکین اب اس بحران کے بعد اسے کم کر کے ۲ سے ۲۔۸ فی صد اضافہ کا اندازہ لگایا جا رہاہے۔
مالی سیکٹر میں غیر مستعد قرضوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے دیوالیہ پن ہو سکتا ہے، جس کے اثرات خدمات سے متعلہ سیکٹر پر پڑیں گے۔
الماس کے مطابق اس بحران سے پہلے حکومت خسارے کو ۷۔۴ سے ۶۔۵ تک محدود کرنا چاہ رہی تھی لیکن اب یہ اخراجات اور ٹیکس اور بلا ٹیکس ہونے والی آمدنی میں کمی کی وجہ سے ۹ فی صد تک پہنچ سکے گا۔
دوسری طرف الماس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر مصیبت میں کچھ مواقع بھی نکلتے ہیں اور آئ ٹی میں ویڈیو کانفرنس ٰوغیرہ جیسی ضروریات کے تحت سافٹ وئیرز کی طلب میں اضافہ ہو گا جبکہ نِجی اور پبلک سیکٹرز میں دی جانے والی خدمات ڈیجیٹائیزیشن اور آن ائن ڈیلیوری کی طرف جائیں گی۔ اسکے علاوہ ملک میں فیس ماسک اور وینٹیلیٹرز جیسی چیزوں کی تیاری کی طرف بھی اب توجہ دی جا رہی ہے۔
ملک میں خوراک کے تحفّظ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے الماس کا کہنا تھا کہ اس سال حکومت گندم کی بڑی ترین فصل کی امید کر رہی ہے جو کہ ۲۷ ملین ٹن تک ہو سکتی ہے۔ اس میں سے حکومت نے کہا ہے کہ وہ خوراک کے تحفّظ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگلے سال کے لیے ۸ ملین ٹن کی خریداری کرے گی۔ حکومت کے ۱۲۰۰ ملین روپے کی ریلیف پیکچ میں گندم کی خریداری کے لیے ۲۸۰ ملین روپے بھی شامل ہیں۔
الماس کا کہنا تھا کہ اس سال اس بحران کی وجہ سے پیش آنے والے ترقی، مالی خسارے، اخراجات اور آمدنی میں کمی سے متعلق چیلنجز کے پیشِ نظر اگلے بجٹ کی توجہ کا مرکز معیشت کی بحالی ہو گا۔
ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا تھا کہ حکومت کو کسی سیاسی مصلحت میں پڑے بغیر ضرورت مندوں کو خوراک کی فراہمی کی طرف توجہ دینی چاہیے، جبکہ لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے طریقے پر اعتراض کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے۔
مزید ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بحران کے گزر جانے کے بعد بھی حالات کا معمول پر آنا کچھ عرصہ تک ممکن نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے کسی بہتر ترقی کی امید بھی نہیں کی جا سکتی جس کے نتیجے میں غربت میں بھی بہت اضافہ ہو گا۔
جواب دیں