‘پاکستان میں پالیسی امور کے لیے تحقیق کے فروغ کا اقدام’
پالیسی مسائل کے حل کے لیے خالص فکر پر مبنی تحقیق ضروری ہے۔
سینیئر پالیسی ماہرین نےابھرتے ہوئےمحققین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات میں معاشرے کے حقیقی مسائل اور ضروریات کو اجاگر کرنے کےلیئےامقامی نقطہ نظرکو بروئے کار لائیں۔ ان خیالات کااظہارانہوں نےانسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی جانب سے۲۱ ستمبر ۲۰۱۷ کو منعقد ہونے والے اجلاس میں شامل ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرزسےخصوصی خطاب میں کیا۔ یہ اجلاس آئی پی ایس کے’پاکستان میں پالیسی ریسرچ کے فروغ کےلیےاٹھائےجانے والےعملی اقدام کاحصّہ تھا۔ اجلاس سےخطاب ڈاکٹرطاہرحجازی، سابق رکن گوورننس اورپالیسی اصلاحات، پلیننگ کمیشن آف پاکستان، ایئرکموڈور(ر)خالد بنوری، مشیر، اسٹریٹیجک پلانزڈویژن، جی ایچ کیو، اور ایگزیکٹوپریزیڈنٹ آئی پی ایس خالد رحمٰن نےکیا۔
خالد بنوری نےپاکستان میں ہونےوالی تحقیق میں مقامی حل کے فروغ کی اہمیت پرزور دیتےہوئےکہاکہ یہ حکمتِ عملی تحقیق کومفید، قابلِ اطلاق اورمعاشرےسےمتعلقہ بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نےنوجوان محققین کودورِحاضراورمستقبل کی ضروریات کےپیشِ نظرمختلف علوم کےمطالعےاورتحقیق کودرپیش چیدہ چیدہ رکاوٹوں سےترجیحی بنیادوں پرنمٹنےکی ضرورت پرزوردیاتاکہ تحقیقاتی عمل کومفید بنایا جاسکے۔
پالیسی ریسرچ اور پالیسی سازی کے درمیان تعلق کی اہمیت کو اجاگرکرتےہوئےخالد بنوری کا کہناتھاکہ اپنے فیصلوں اور تجاویزکومعقول بنانےکےلیئےاراکینِ پارلیمنٹ نے محققین کی خدمات حاصل کرنا شروع کر دیں ہیں تاکہ انکی سمجھ بوجھ کادائرہ کار وسیع ہوسکے۔
قبل ازیں ڈاکٹر طاہرحجازی نےبھی اپنےخطاب میں پالیسی ریسرچ اورپالیسی سازی کے درمیان حائل خلیج کےخاتمےکی ضرورت پر زوردیتےہوئےکہاکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں پبلک پالیسی ماہرین کی تعداد انتہائی کم ہے جو کہ ایک تشویشناک امرہے۔ اسپیکرنےاپنےخطاب میں تحقیقاتی عمل کو درپیش مختلف رکاوٹوں کا حوالہ دیتے ہوئےان کےحل کےلیئےتجاویزبھی دیں۔ انہوں نے تحقیق کے لیئےمختلف موضوعات کی جانب اشارہ کرتےہوئےمروجّہ تحقیق میں عملیت پسندی اور مقامی ضروریات سے مطابقت کی اہمیت پربھی زوردیا۔
ایگزیکٹوپریزیڈنٹ آئی پی ایس خالدرحمٰن نےاجلاس کے آخرمیں دورِجدید کی سیاست اور نظمِ عامّہ میں محققین کےکرداد کی اہمیت پر زور دیتےہوئےکہاکہ حقیقی مفکرین کی تربیت دورِحاضر کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ان دانشوروں کی بنیادی زمہ داری علم نافع کی تخلیق ہےاوربجائےمقامی حل دریافت کرنے کےاگرہم یوں ہی مغربی نظریات کومن وعن اپنی تحقیق کی بنیاد بناتےرہےتوملک کودرپیش موجودہ مسائل کو کبھی بھی مؤثراندازمیں حل نہیں کرسکیں گے۔
جواب دیں