نیشنل اکیڈمک کونسل کا سالانہ اجلاس ۲۰۱۱ء
نیشنل اکیڈمک کونسل، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کا رہنمافورم ہے۔ یہ ادارہ آئی پی ایس کو علمی و تحقیقی کام کے منصوبہ کی تشکیل اور تحقیقی سرگرمیوں کو مؤثر اور مفید تر بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ نیشنل اکیڈمک کونسل کا سالانہ اجلاس ۲۱ مئی ۲۰۱۱ ء کو منعقد ہوا۔ جس میں سال گزشتہ کے کام کا جائزہ لیا گیا اور آئندہ سال کے لیے علمی و تحقیقی کام کی منصوبہ بندی کی گئی۔
کونسل کے ارکان نے آئی پی ایس کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے پاکستان کو درپیش موجودہ داخلی، علاقائی اور عالمی چیلنجز کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل میں کام کی منصوبہ بندی کے حوالہ سے متعدد تجاویز پیش کیں۔
جن علمی موضوعات پہلے سے کام ہو رہا ہے، انہیں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، مستقبل کے لیے غور وفکر کا ہدف بنانے کے لیے کئی نئے موضوعات بھی تجویز کیے گئے۔ ان میں نمایاں طور پر مشرقِ وسطیٰ میں عوامی بیداری، مسئلہ فلسطین، پاک روس تعلقات، وسطی ایشیا اور بھارت تعلقات، ترکی اور مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی فکری تحریکیں، پانی کے مسائل، دہشت گردی اور عسکریت پسندی، فاٹا میں مسائل، فوج کا کردار، لاپتہ افراد کا مسئلہ، اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کا کردار قابلِ ذکر ہیں۔
یہ محسوس کیا گیا کہ موجودہ دور میں دنیا، مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستان کے حوالہ سے جن اہم مسائل کا دباؤ محسوس کیا جارہا ہے اُس کے پیشِ نظر زیادہ گہرائی میں جاکر تحقیقی کام کرنے اور قابلِ عمل متبادل راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ فوری توجہ حاصل کرنے والے مسائل کے ساتھ ساتھ زیادہ توجہ ایسے مسائل پر مرتکز کی جائے جو طویل المیعاد ہیں اور تذویراتی (اسٹریٹیجک) نوعیت کے ہیں۔پچیس سالہ ایجنڈے اور ترجیحاتی نکات کا تعین کیا جائے اور پھر پانچ پانچ سال کا منصوبہ بنایا جائے۔
اجلاس کے شرکاء نے تجویز کیا کہ آئی پی ایس کو قومی سطح پر لاکھوں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حتی الامکان پوری طرح فائدہ اٹھانے کی حکمتِ عملی بنانے پر غوروفکر کرنا چاہیے۔ یہ لوگ اپنی مہارتوں اور رقوم کے ذریعے معاشرتی بہبود اور قومی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
نیشنل اکیڈمک کونسل نے پانی کے مسائل پر زیادہ غوروفکرکرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک جانب تو یہ دیکھا جائے کہ وہ کیا غلطیاں ہیں جن کے باعث سندھ طاس معاہدہ (انڈس بیسن واٹر ٹریٹی) میں شامل مثبت قانونی دفعات کے باوجود پاکستان ان سے فائدہ اٹھانے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ دوسری جانب پانی کے مسئلہ پر انڈیا کی جانب سے کی جانے والی اس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کا مطالعہ کیا جائے۔
یہ بھی تجویز کیا گیا کہ ملک میں پانی کے ذخائر اور پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر گہری تحقیقی نظر ڈالی جائے۔ چونکہ افغانستان سے متعدد دریا، جن میں کابل، گومل اور کرم شامل ہیں، پاکستان میں آتے ہیں، اس لیے یہ مناسب وقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان پانی کی باہمی تقسیم کے معاملات طے کرلیں۔
علاقے میں امن اور استحکام کے لیے علاقائی بلاک کے ایسے تصور پر مطالعہ کا پروگرام بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی جس میں ترکی، پاکستان، ایران، افغانستان اور چین شامل ہوں۔
جواب دیں