مربوط منصوبہ بندی اور بہتر طرز حکمرانی ہی توانائی کے مسئلے کا حل ہے
توانائی کے ماہرین نے پالیسی سازی سے متعلق ایک گول میز کانفرنس میں حکومت پہ زور دیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں طویل مدتی مربوط منصوبہ بندی کو فروغ دے۔ بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلقہ توانائی کے منصوبوں میں بہتر حکمت عملی ، انتظام و انصرام اور عملی اقدامات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آئی پی ایس میں ۱۰ جنوری ۲۰۱۷ کو ” پاکستان میں توانائی کا شعبہ: کیفیت اور امکانات” کے عنوان سے ہونے والے مزاکرے کے مرکزی مقرر سید اختر علی تھے جو کچھ عرصہ پہلے تک پلاننگ کمیشن میں ممبر توانائی کی حیثیت سے پالیسی اور پلاننگ کے عمل کا حصہ رہے ہیں۔ سیمینار کی صدارات کے فرائض اشفاق محمود، سابق سیکریٹری وزارت پانی و بجلی نے ادا کیے۔ جبکہ شرکت کرنے والے دیگر اہم افراد میں سابق وفاقی سیکریٹریوں اور توانائی پالیسی کے تجزیہ کاروں مسعود ڈاہر اور صلاح الدین رفاعی کے ساتھ آئی پی ایسوسی ایٹس برگیڈئر ریٹائرڈ سید نذیر اور امینہ سہیل شامل تھیں۔ اشفاق محمود نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم چین پاکستان اقتصادی راہداری کی منصوبہ سازی اور مذاکراتی عمل میں پاکستان میں توانائی کے منصوبہ سازوں کے لیے اوّلین اہمیت کا حامل منصوبہ ہونا چاہیئے تھا لیکن تاحال بجلی اور پانی ذخیرہ کرنے کا اس انتہائی اہم منصوبہ کو پس پشت چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاہم اختر علی نے وثوق سے کہا کہ چین ابتدائی طور پر بجلی کے پیداوار کے چھوٹے منصوبوں پر کام کر رہا ہے تاہم قوم جلد ہی خوشخبری سنے گی کہ دیا مر بھاشا ڈیم منصوبے کے لیے رقم چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں یا پی ایس ڈی پی کے تحت مختص کر دی جائے گی۔ واپڈا نے اس کے لیے پہلے سے ہی ایک فزیبیلیٹی رپورٹ پیش کر دی ہے۔ سید اختر علی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان میں توانائی کے شعبے کے لیے ابھی بھی انتہائی سنجیدہ اور طرز حکمرانی کے دائمی مسائل سد راہ ہیں تاہم ایک امید کی کرن موجود ہے کہ ریگولیٹری نظام میں متعدد اداروں کے تعامل کے نتیجے میں توانائی کے شعبے میں حکمت عملی اور منصوبہ سازی میں بہتری آرہی ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرلینے کا حدف کسی حد تک ۲۰۱۸ء کے آخر تک حاصل کر لیا جائے گا تاہم بجلی تقسیم کرنے کی صلاحیت میں حائل مسائل کے باعث لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا۔ قرض اور غیر ملکی کرنسی کے واجبات کی مد میں مستقبل کے مالی مضمرات کا بھی ابھی تک ادراک نہیں کیا جا رہا۔ سیمینار میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے کی جانے والی چند کوششوں کے علاوہ پاکستان میں کبھی بھی توانائی کی مربوط منصوبہ بندی پہ کوئی ایسا سنجیدہ کام نہیں ہوا جس کے ذریعے اقتصادی نمو کے تخمینوں کے مطابق ملک میں توانائی کی مستقبل کی ضرورتوں کا تعین کیا جا سکے۔ اس گول میز نشست کے شرکاء نے توانائی کے موجودہ منصوبوں کی منصوبہ بندی ، انتظام و انصرام اور ان پہ عمل درآمد کے طریقہ کار پر بھی تنقید کی۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پنجاب میں کوئلے سے بجلی کی پیداوارکے پلانٹس بناتے وقت کوئی مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ کوئلہ وہاں تک پہنچایا کیسے جائے گا۔ اسی طرح سندھ میں کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے منصوبوں میں توانائی کی تقسیم جیسے اہم معاملے میں سنگین نوعیت کی غفلت برتی گئی۔ اسی طرح کی غفلت اس سے پہلے نندی پور منصوبے میں ہو چکی ہے۔ امینہ سہیل نے مطالبہ کیا کہ ریگولیٹری اداروں کے کیے گئے فیصلوں کے خلاف ریگولیٹری ٹربیونلز کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان کے کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق استعمال کیا جا سکے۔ اشفاق محمود نے اختتامی صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ توانائی کے شعبے میں مربوط منصوبہ بندی اور اچھی طرز حکمرانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے ذریعے ہماری توانائی کی ضروریات پوری ہونے کے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں تو یہ بہترین موقع ہے کہ ہم اس موقع پر ہی ہم ایسے دیرینہ مسائل کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کر لیں تاکہ پاکستان کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیرف کی مد میں تیس سال تک کی حکومتی ضمانت توانائی کی پیداوار میں مقابلے کی مارکیٹ پیدا نہیں ہونے دے گی ۔ اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں کھلی مارکیٹ میں بجلی کی خرید و فروخت کا طریقہ کار سمجھنا چاہئے اور ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جانا چاہئے جو پاکستان کی ضروریات کے عین مطابق ہو۔
جواب دیں