’ مذہبی تبدیلی پرمجوزہ قانون ‘ کی بنیاد تحقیق کے نتائج پر ہونی چاہیے نہ کہ قصے کہانیوں پر
’جبری تبدیلیٔ مذہب کی روک تھام کےمجوزہ بل‘ کا مقصد ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کو روکناہے اوریہ اس وقت پارلیمانی کمیٹی کے ایجنڈے پر ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ اسے پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلیوں کی اصل پوزیشن اور حقائق کی مناسب تحقیق کےبغیر تجویز کیا گیا ہے۔یہ مجوزہ قانون سازی آئین کے بنیادی اصولوں اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کی خلاف ورزی ہے اسےپالیسی سازوں پر جی ایس پی پلس جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے دباؤ ڈال کر مسلط کیا جا رہا ہے۔
یہ اس گفتگو کا لب لباب ہے جو 5 اکتوبر 2021ء کو ایک سیمینار میں ہوئی جس کا عنوان تھا ’پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے قصے کہانیاں اور اس کی حقیقت‘۔ اس سیمینارکا اہتمام اسلام آباد بار ایسوسی ایشن (آئی بی اے) اور لیگل تھنکرز فورم نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے ساتھ اشتراک سے کیا تھا۔
آئی پی ایس کے ریسرچ آفیسر اور آئی پی ایس کے تحقیقی مطالعہ’جبری مذہبی تبدیلی یا عقیدے کی تبدیلی : بیان بازی اورحقیقت‘ کے مصنف صوفی غلام حسین نے اس سیمینار میں کلیدی خطاب کیا اور اس مسئلے پر اپنی تحقیق کی اہم پہلو اور نتائج بیان کیے۔ دیگر مقررین میں اسلامی نظریاتی کونسل سے سینیٹر مشتاق احمد خان ، ڈاکٹر اکرام الحق اور ڈاکٹر انعام اللہ جبکہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن سے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ شامل تھے۔
صوفی نے مبینہ جبری مذہبی تبدیلی پر ہونے والی گفتگو کے مختلف پہلوؤں سےقانونی برادری کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً دو درجن این جی او رپورٹس میں سے کسی نے بھی پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات پر کوئی قابل اعتماد اور قابل تصدیق ثبوت فراہم نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت اس طرح کی ہر رپورٹ اپنی ہی طرح کی ایک اوررپورٹ کا حوالہ دیتی ہے تاکہ اپنی بات کی ساکھ بنائے اورتکرار کی اس دلیل سے اپنے دعوے کی صداقت کا تاثر دیا جا سکے۔
پاکستان میں ہر سال 1000 ہندو لڑکیوں کے جبری مذہب تبدیل کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے صوفی نے وضاحت کی کہ کس طرح نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈیٹا کو گھڑتی ہیں اورپھر اس ڈیٹا کاایسےآن لائن اکاونٹس کے ذریعے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، اس کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اسے پروجیکٹ کیا جاتا ہے جو زیادہ تر امریکہ اور بھارت سے چلائے جا رہے ہیں۔مبالغے پر مبنی اس تشہیر سے الزام کو ایک حقیقت کا روپ دے دیا جاتا ہے اور پھر اسے پاکستان کو مختلف فورمز پر بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے آئی پی ایس کی شراکت سے کی گئی تحقیق سے حاصل کردہ تجرباتی اعدادو شمار ، سوسائٹی میں درجنوں لوگوں کے انٹرویوز اور مذہب تبدیل کرنے والے افراد کے اعداد و شمار پیش کیے۔ انہوں نےکہا کہ 18سال کی عمر سے پہلے اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد کل اعداد و شمار کا صرف ایک حصہ ہے اور وہ اس دعوے کی تائید نہیں کرتے کہ نابالغوں کو زبردستی اسلام میں لایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شادی مذہب تبدیل کرنے والی خواتین کے لیے اس سارے عمل کی بنیادی وجہ بن جاتی ہےکیونکہ ایسی خواتین کو اپنے خاندان اور برادری کے شدید دباؤ کے باعث اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد ایک پناہ اور نیا گھر تلاش کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نےاپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’اس بڑے فیصلے میں کئی دوسرے عوامل بھی شامل ہیں اور یہ سوچنا بے وقوفی ہوگی کہ تمام مذہبی تبدیلیوں کا مقصد شادی ہے‘‘۔
مجوزہ بل کے پیچھے مختلف گروہوں کے ذاتی مفادات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق نے الزام لگایا کہ پارلیمانی کمیٹی کی تجاویز چرچ آف انگلینڈ اور امریکی محکمہ خارجہ کی مشاورت سے تیار کی گئی ہیں اور ان تجاویز میں کسی قانون سازی کی تیاری کا عمل شامل نہیں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حال ہی میں منظور ہونے والے قوانین کے ایک سلسلے نے آئینی فریم ورک ، پارلیمنٹ کی بالادستی اور مقامی اقدار کو مجروح کیا ہے اوراس کے پیچھے بین الاقوامی عطیہ دہندگان کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔
سینیٹر نے کہا کہ مجوزہ بل اسلام کے احکامات اور 1973 کے آئین کی روح کے منافی ہے جو علامہ اقبال کے 1930 کےخطبہ الہٰ آباد اور پاکستان کے قیام سے پہلے اور بعد میں قائداعظم کے فرمودات کی روشنی میں بنایا گیا تھا۔
دیگر مقررین نے پاکستان میں مذہب کی تبدیلی کوقانون کی عملداری میں لانے کےلیے وفاقی حکومت کی جانب سےاٹھائے جانے والےقانونی اقدامات پر غور کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات بھی اسی تفرقہ انگیز کوشش کا حصہ ہیں جس میں نظریاتی اور عملی سطحوں پر واضح خامیاں ہیں اور جس نے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایک سنگین چیلنج پیدا کیا ہے۔
سیکرٹری آئی بی اے لیاقت منظور کمبوہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ کسی بھی شخص کا مذہبجبری تبدیل کرنا ایک گھناؤنا جرم ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے، لیکن یہ سب کچھ پروپیگنڈے اور سیاسی محرک کی بنیاد پر ہونے والی بیان بازی کےباعث نہیں کیا جانا چاہیے۔
جواب دیں