لیکچر سیریز: ”ایک تبدیل ہوتے عالمی اقتصادی نظام میں پاکستان کی معیشت“
آئی پی ایس کے جاری کردہ فیلوشپ پروگرام کے تحت نامور ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے لیکچروں کی سیریز کا اہتمام کیا گیا۔ 14 سے 17 فروری کے دوران آئی پی ایس اور وفاقی دارالحکومت کی نمایاں یونیورسٹیوں میں منعقد ہونے والی اس لیکچر سیریز کا موضوع تھا ”ایک تبدیل ہوتے عالمی اقتصادی نظام میں پاکستان کی معیشت“۔
ڈاکٹر شاہدہ وزارت اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سنٹر (AERC) کراچی یونیورسٹی کی سابق ڈائریکٹر اور کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ (CESD) کی موجودہ ڈین اور پاکستان بزنس ریویو (PBR) انسٹی ٹیوٹ آف بزنس منیجمنٹ (IOBM) کراچی کی ڈائریکٹر ریسرچ اور چیف ایڈیٹر ہیں۔
اس سیریز کا پہلا لیکچر 14فروری 2017ء کو آئی پی ایس میں ہوا اور اس کا موضوع تھا ”ترقی پذیر ممالک کو درپیش چیلنجز اور ہمارا ردِّعمل“۔ لیکچر کے لیے منعقد کیے گئے اجلاس کی صدارت سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور خارجہ امور کے سابق سیکرٹری جنرل ایمبسیڈر(ریٹائرڈ) اکرم ذکی نے کی۔
دوسرا لیکچر 15فروری 2017ء کو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس (IIIE) بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی (IIUI) اسلام آباد میں منعقد ہوا اور اس کا موضوع تھا ”خوراک کا تحفظ-بین الاقوامی تناظر اور پاکستان“۔ 16فروری 2017ء کو بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ہونے والے اگلے لیکچر کا موضوع تھا ”پاکستانی طرز حکومت میں معیشت کا پہلو: مسائل اور حکمتِ عملی“۔
لیکچرز کی اس سیریز کا اختتام 17فروری 2017ء کو قائدِاعظم یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس میں پہلے لیکچر ”ترقی پذیر ممالک کو درپیش چیلنجز اور ہمارا ردِّمل“ کا دوبارہ انعقاد کرکے ہوا۔
ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے ان لیکچروں میں اس بات پہ روشنی ڈالی کہ دنیابھر میں کئی ماہرین معاشیات عالمگیریت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں اور اسے تیسری دنیا کے حوالہ سے ایک وسیع اور منظم لوٹ کھسوٹ کا حصہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی پیداواری صلاحیت، ان کی کاشتکاری، زمین، لیبر، جنگلات اور ماہی گیری جیسے تمام پیشے صرف چند امیرترین لوگوں کے فائدے سے جڑ کر رہ گئے ہیں۔
اکپیری، سلابرٹ، ہینز اور ٹرینر جیسے ماہرین معاشیات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹرشاہدہ نے کہا کہ عالمگیریت، بین الاقوامیت اور بیروزگاری کے مابین ایک گہرا تعلق استوار ہے۔ ان موضوعات پر مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیابھر میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے عالمی عدم مساوات کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ”عالمی امیر“ اور ”عالمی غریب“ کے درمیان خلیج بڑھتی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیسری دنیا کی حکومتوں کے برعکس بین الاقوامی کارپوریشنیں (Transnational Corporations TNCs) ان ممالککے شہریوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھنے والی غیرملکی سرمایہ کاری اور ان کے قومی مفادات کو نقصان پہنچانے سے بچنے والے عوامل کو تہ تیغ کرتی ہوئی تیسری دنیا کی ترقی کو اپنی خواہش پر ترتیب دینے کے راستے پر گامزن ہیں۔ انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ ترقی پذیر ممالک کو جی ایم فوڈ سپلائی کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کے اپنے ہاں ان کھانوں کی مصنوعات کی کھپت پر بہت سخت قوانین ہیں۔ان میں سے بہت سے ممالک میں تو ان کی کھپت سختی سے منع ہے۔ انہوں نے جی ایم مصنوعات کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پاکستان سیڈایکٹ میں کی گئی حالیہ ترمیم میں شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے قانون سازی کی موت قرار دیا کیونکہ اس سے ملک کے ٹیکسٹائل سیکٹر اور غذائی تحفظ پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
ڈاکٹر وزارت کے نزدیک ترقی پذیر ممالک کے لیے دوسرا بڑا چیلنج بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے تنازعات اور عسکریت ہیں۔ ایشیا، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ کے ممالک فرقہ ورانہ، نسلی اور نظریاتی تنازعات کا شکار ہیں۔ ان تنازعات کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ مختلف ممالک میں آبادیاں شدید نوعیت کی نسلی، فرقہ ورانہ اور نظریاتی گروپ بندیوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں کچھ ممالک میں تنازعات پنپ رہے ہیں لیکن ابھی تک کھلی جنگ کی شکل اختیار نہیں کر پائے۔ کچھ ان کا شکار ہو چکے ہیں اور کہیں معاشرے کشمکش کا شکار ہوئے پڑے ہیں۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں اس تقسیم کو ہوا دینے کے لیے بیرونی عوامل اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔
اپنی 2014ء کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ دنیا کے تنازعات میں ایک فیصد اضافے نے ترقی یافتہ ممالک کی جی ڈی پی میں 7٫7 فیصد اضافہ کیا جبکہ ترقی پذیر ممالک میں مذکورہ زوال کے باعث جی ڈی پی 3٫8 فیصد ہے۔
گویا ترقی یافتہ ممالک ان تنازعات سے بھرپور استفادہ اٹھا رہے ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کیونکہ ان کی فوجی صنعت خوب پھل پھول رہی ہے اور ان تنازعات کے سبب وہ تیسری دنیا کے ان قدرتی وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں جن کی حفاظت کرنا ان ممالک کے اپنے بس میں نہیں۔
ڈاکٹر شاہدہ نے جس تیسرے چیلنج کا ذکر کیا وہ پیداوار کے نظریے کے حدودوقیود کا ہے۔ معروف امریکی ماہر معاشیات جیفری ساچس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کسی طور پائیدار ترقی نہیں ہے کہ ترقی یافتہ ممالک 1٫6 فیصد فی فرد کی شرح سے ترقی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ایشیا اور تیسری دنیا کے ممالک اوپر بیان کیے گئے عوامل کے باعث جی این پی کی شرح میں چار سے چھ گنا اضافہ دیکھ رہے ہوں۔
2025ء تک دنیا کی آبادی 10ملین تک بڑھ جانے کے امکانات ہیں۔ اگر ان 10ملین افراد نے امیر ممالک کی پیروی کرتے ہوئے خوراک کی کھپت کی جو کہ 0٫5 ہیکٹر قابل کاشت زمین سے پیداوار حاصل کر رہے ہیں تو ہمیں اس وقت 5بلین ہیکٹر اراضی خوراک پیدا کرنے کے لیے درکار ہو گی جبکہ اس وقت ہم 1٫4 بلین ہیکٹر قابل کاشت زمین استعمال کر رہے ہیں اور جس کے مزید کم ہوجانے کے امکانات ہیں۔
انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ عالمگیریت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ترقی کے ماڈل کے پیمانے ہیں جنہیں اپنے مضموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے امیر ممالک نے ایسی پالیسی سفارشات کی شکل میں ڈھال رکھا ہےکہ ایشیائی ممالک قربانی کا بکرا بنے ہوئے ہیں۔ پھر ایک اور طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ نہ صرف ایشیا بلکہ پوری تیسری دنیا کے ممالک کو تنازعات میں دھکیل دیا جائے۔
اس پالیسی کو مزید تقویت اس تجویز کے ذریعے ملی جو رینڈ کارپوریشن نے امریکی حکومت کو دی کہ 2008ء کی عظیم کسادبازری کے حل کے لیے ایک عالمی جنگ شروع کر دی جائے۔ اس وقت امریکہ افغانستان اور عراق میں مصروفِ جنگ تھا اور رینڈ کارپوریشن نے تجویز دی کہ عالمی معیشت کو اس گہری کسادبازاری سے نکالنے کے لیے امریکہ کا صرف ان دو ممالک میں مصروف ہونا کافی نہیں ہو گا۔ چنانچہ اگر اعلیٰ درجے کی مغربی معیشتوں اور ایشیائی ممالک اور دیگر جگہوں کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان ترقی کی شرح پر تجارتی توازن موجودتھا تو اپنا مفاد پورا کرنے کے لیے ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک میں یکدم افراتفری پھیلا دینے کے لیے حل یہ سوچا گیا کہ انہیں تنازعات میں الجھا دیا جائے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بحیثیت قوم ان حقائق کا ادراک ہونا چاہیے اور ہمیں پاکستان کو فرقہ ورانہ، نسلی، نظریاتی اور سیاسی گروہ بندیوں میں دھکیل دینے کی سازشوں کے خلاف پیش بندی کرنی چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے حصے کا کردار ادا کرے اور جو بیرونی عوامل تفریق کا یہ ماحول پیدا کرکے فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں ان کے مضموم ارادوں کو ناکام بنائے۔
جواب دیں