عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر

globalization

عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر

 

 

 

 

 

سوال و جواب

سوال: بنگلہ دیش میں محمد یونس (گرا مین بنک)نے قرض دینے کے حوالے سے جو قدم اُٹھایا ہے وہ معیشت کو ترقی دینے میں کتنا مفید ثابت ہوا ہے اور کیا باقی ممالک میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے؟

جواب: اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس عمل سے معیشت میں بہتری آئی ہے لیکن وہاں بھی سُود ی نظام کو قائم رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم عورتوں کو قرض دیتے ہیں لیکن دیہات کی ان پڑھ عورتیں اپنا کاروبار خود نہیں چلا سکتیں اس لیے عورتوں کا نام استعمال کیا جاتا ہے پیسہ اصل میں مردہی کی جیب میں جاتا ہے۔ یقیناًاس نظام کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے ترقی کی ہے لیکن بہت سے لوگ تباہ بھی ہوئے ہیں کیونکہ بظاہر اُن کی شرح سُود 18فیصد ہے لیکن Effective rate of interest 30سے 40فیصد اور بعض اندازوں کے مطابق 85فیصد تک بھی پہنچ سکتا ہے۔Effective rate of interestسے مراد یہ ہے کہ جب آپ قرض لینے جاتے ہیں تو آپ کو مختلف قسم کی فیسوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ کو 18فیصد سُود بھی دینا ہے۔ یہ تمام رقم مل کر جو شرح سُود بنے گی وہ Effective rate of interestہے۔ ایسی صورت میں اگر تو کسی کے پاس اچھا منصوبہ ہے اور وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر معاملہ ٹھیک ہے لیکن اگر کسی کا کاروبار نہ چل پائے تو وہ بے چارا مصیبت میں آجاتا ہے۔ کیونکہ اسے قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے اثاثے بھی بیچنا پڑ سکتے ہیں اور گرامین بنک قرض کی وصولی میں بہت بے رحم ہے۔ ان کاطریقہ کار یہ ہے کہ پانچ، چھ افراد کا ایک گروپ قرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی قرض نہ دے سکے تو باقی لوگ قرض ادا کریں گے۔ چنانچہ اگر ایک شخص کسی وجہ سے قرض ادا نہ کر پائے تو باقی لوگ اسے مجبور کر دیتے ہیں، اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور قرض کی ادائیگی کے لیے بے چارے غریب کو اپنا سب کچھ بیچنا پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے بنک کے قرض کی ادائیگی 99فیصد ہے۔ یہ اچھی چیز ہے لیکن اس میں یہ خامی ہے کہ آدمی کو اپنے بہت سے اثاثے بیچنے پڑ سکتے ہیں۔ قرض لیتے وقت آدمی یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس کا کاروبار چل پائے گا یا نہیں۔ مثلاً کسی شخص نے قرض لے کر گائے خریدی کچھ دنوں کے بعد وہ گائے بیمار ہوکر مر گئی تو وہ شخص مصیبت میں آجائے گا۔ ایسے بہت سارے معاملات ہو سکتے ہیں جہاں انسان کا منصوبہ ناکام ہوجائے اور قرض کی ادائیگی کے لیے آدمی کو اپنے سارے اثاثے بیچنا پڑیں۔ بنگلہ دیش اکنامک ایسوسی ایشن کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں بہت سے گھر تباہ ہوچکے ہیں۔
جیسا کہ امریکہ کے بارے میں ذکر کیا گیا کہ جب یہ یقین ہو کہ قرض واپس مل جائے گا تو پھر قرض دیتے وقت کیوں تحقیق کی جائے؟ آپ قرض دے کر اس کو بیچ دیں تو پھر آپ جتنا چاہیں قرض دیں، آپ کو تو یقینی منافع ملے گا۔ یہی خامی اس نظام میں بھی ہے کہ اگر آدمی مشکل میں پڑ جاتا ہے تو خواہ اس کی ساری چیزیں ہی بک جائیں، اسے قرض واپس کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کا طریقہ کار یہ ہے کہ جو لوگ بہت غریب ہیں انہیں قرضِ حسن دیا جائے، جو نسبتاً بہتر حالت میں ہیں ان کی نفع و نقصان میں شراکت ہو۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ قرض دینے والا خوب چھان بین کر کے قرض دے گا۔ یاپھر مرابحہ، اجارہ وغیرہ کا طریقہ ہے ان کے ذریعے قرض دیا جائے۔ بعض حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اس طرح لوگ قرض لے کر بھاگ جائیں گے۔ یہ بالکل غلط تصور ہے۔ ایک شخص دیہات میں برس ہا برس سے رہتا ہے، اس کے خاندان کے خاندان ہمیشہ سے وہاں آباد رہے ہیں تو وہ شخص کیسے بھاگ سکتا ہے۔ ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ عموماً غریب لوگ قرض کی ادائیگی میں زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ امیر لوگ تو بنکوں سے قرض لے کر معاف کر الیتے ہیں، غریب آدمی ایسا نہیں کرسکتا، وہ قرض واپس کر دیتا ہے چنانچہ یہ اعتراض بالکل بے کار ہے کہ ہم غریب لوگوں کو قرض نہیں دے سکتے۔
نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر، مرابحہ، اجارہ (یعنی اگر کسی کو رکشہ خریدنا ہے تو وہ اس کو اجارے پر اُٹھا سکتا ہے کہ اسکی مناسبت سے وہ قیمت ادا کرتا رہے) وغیرہ یا دیگر اسلامی طریقوں کے ذریعے قرض دیا جائے یہ گرامین بنک کے طریقے سے کہیں زیادہ بہتر طریقے ہیں۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سوچتے ہیں مگرعمل نہیں کرتے۔ گرامین بنک والے محمد یونس نے micro creditکے بارے میں سوچا، اس کو پھیلایا اور اسے نوبل انعام بھی دیا گیا۔ ہم مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں، کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم بھی اسی طرح سے قرض دینے کا نظام اسلامی طریقے پر شروع کریں۔ پاکستان میں بہت ہی محدود پیمانے پر ایسے ادارے ہیں لیکن گرامین بنک کی طرح کوئی وسیع نظام موجود نہیں ہے۔

سوال: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران اصل میں بینکاری نظام کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہو ا ہے۔ لیکن پچھلے دوسالوں میں شائع ہونے والے مضامین کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بحران کے دوران پورے کے پورے معاشی نظام کے حوالے سے بہت سے سوالات اُٹھائے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ شاید پُورا معاشی نظام یعنی سرمایہ داری نظام (Capitalism)ہی ناکام ہوجائے گا۔ ایک تو یہ وضاحت کر دیجیے کہ بینکاری نظام کی خامیوں کی بنیاد پر پُورے نظام کے بارے میں سوچنے پر وہ کیوں مجبور ہوئے ۔ دوسرا سوال یہ کہ اس دوران کچھ ایسی آوازیں بھی اُٹھائی گئیں کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام کیا حل پیش کرتا ہے؟ کیا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس بحران کا حل کسی فرد یا ادارے نے پیش کیا؟ اگر پیش کیا تو اس کا ردِ عمل کیارہا؟

جواب: دراصل مسئلہ صرف بینکاری نظام کا نہیں بلکہ پُورا نظامِ زندگی فاسد ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خرچ، اسراف (consumption)کو بہت زیادہ پھیلایا جا رہا ہے۔ قرض لینے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ قرض کو ترقی دینے اور معیشت کے پھیلاؤ پر توجہ مرتکز رکھنے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی اقدار کو معاشیات سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ رسولِ اکرمﷺ کی ایک حدیث ہے۔
قلِّ دَ ینِک، تَعِشْ حُرّاً (اپنا قرض کم کرو تو آزاد رہو گے)۔
یہ حدیث صرف افراد ہی نہیں بلکہ حکومتوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ قرض لینے والے خواہ افراد ہوں یا حکومتیں، انہیں قرض خواہوں کا حُکم تو ماننا پڑتا ہے۔ اگر آپ کو کسی چیز کی اشد ضرورت ہے تو ضرور خرید یے لیکن بے جا اسراف سے بچنا بہت ضروری ہے۔ بلاوجہ اخراجات مثلاً دعوتوں ، شادی بیاہ، تقریبات وغیرہ میں بے سوچے سمجھے روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس وجہ سے نہ صرف افراد بلکہ معیشت کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ہر ملک کے نظام میں یہ خوبی ہونی چاہیے کہ ضرورت مند افراد اپنی ضرورت کی اشیاء قرض پر خرید سکیں۔ اس سے بڑھ کرظلم کیا ہوگا کہ امیر آدمی جو چاہے خرید لے لیکن غریب اپنی ضرورت کی چیز بھی نہ خرید سکے ۔ اگر اس بات کا اہتمام نہ کیا گیا تو غربت رہے گی اور اس کی وجہ سے بحران بھی آسکتے ہیں۔
حکومتوں اور افراد کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں۔ جو ضرورت کی چیزیں ہیں صرف وہی خرید یں اور جتنا بچا سکتے ہیں بچائیں۔ پاکستان میں بچت کی شرح بہت کم ہے۔ چین میں یہ شرح 42فیصد ہے یعنی GDPکا 42فیصد بچا یا جاتا ہے۔ مشرقی ایشیا کے بعض ممالک (جنہوں نے بڑی ترقی کی ہے) میں یہ شرح 25سے 35فیصد ہے، ملائیشیا جو کہ ایک مسلمان ملک ہے، وہاں بھی بچت کی شرح بہت زیادہ ہے۔
پاکستانی معاشرے میں عوام اور حکومتوں کے فضول اخراجات کی وجہ سے یہ شرح بہت ہی کم ہے۔ اس میں اضافے کا طریقہ یہ ہے کہ خرچ کوکم کیاجائے اور بچت کو بڑھا یا جائے ۔ اور قرض صرف ان چیزوں کے لیے لیا جائے جو بے انتہا ضروری ہیں۔ موجودہ نظام کے تحت غریب افراد کے لیے قرض لینا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ کوئی ایسا نظام بنائیں جس کے تحت غریب لوگوں کو آسان شرائط پر قرض مہیا کیا جاسکے۔

سوال: آپ نے کہا کہ جس انداز میں موجودہ بین الاقوامی معاشی نظام چل رہا ہے اس میں مزید بحران آئیں گے اور بالآخر یہ تباہ ہوجائے گا۔ اس کے خاتمے کی صورت میں کیا کوئی متبادل نظام ایسا ہے جو اس کی جگہ لے سکے؟ دوسرا یہ کہ اس نظام کے خاتمے کی صورت میں اگلا معاشی مرکز نیو یارک کی بجائے بیجنگ (چین) ہو گا یا یہ اسلامی دُنیا بھی ہو سکتا ہے؟

جواب: متبادل نظام تو موجود ہے مگر اس وقت دنیا اس کو قبول نہیں کرے گی۔ جب کوئی مشکل آتی ہے تبھی لوگ غور کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ موجودہ بحران کی وجہ سے اسلام کے معاشی نظام کا بھی غور سے مطالعہ کیا جارہا ہے، اس کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ ورنہ ایک ترقی پذیر مُلک (جس کو امریکہ میں مسترد کیا جارہا ہے) کے دین کے دیے ہوئے حل کے بارے میں لوگ کیوں سوچیں گے؟ لیکن جب اگلا بحران آئے گا تو اسلام کا نظام زیادہ مقبول ہوگا۔ عالمگیریت کے ذیل میں اگرامریکہ مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ کون لے گا؟ واللہ اعلم! یہ اس پر منحصر ہے کہ بحران کب آتا ہے۔ اگر عنقریب دس پندرہ سالوں میں آتا ہے تو اغلباً چین اسکی جگہ لے گا۔ چین بھی اگرچہ بہت بڑا مُلک ہے مگر اس کا نظام بھی صحیح نہیں ہے اور اس میں بھی بہت سی خرابیاں ہیں، اُن کے ہاں بھی اب مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اس لیے نہیں کہا جاسکتاکہ وہ کب تک چل پائے گا۔ Bric nationsیعنی برازیل، روس ،بھارت اور چین، یہ وہ ممالک ہیں جن کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ شاید یہ کچھ کر سکیں لیکن توقع نہیں ہے کہ یہ امریکہ کی جگہ لے سکیں۔ اولاً تو یہ کہ امریکہ ان سب کے مقابلے میں بہت بڑاہے۔ امریکہ کے بعد جاپان کی معیشت ہے جو غالباً امریکہ کی نصف ہے، جرمنی کی معیشت 1/3ہے۔ چین کی معیشت جاپان سے بھی کم ہے۔ مسلمان ممالک تو ابھی خستہ حالت میں ہیں۔ ہم چاہیں تو بہت آگے بڑھ سکتے ہیں مگر ہمارے ہاں ترقی کے تقاضے پُورے نہیں کیے جاتے۔ مسلمان ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ دوسرے جتنے بھی مسلمان ممالک ہیں مثلاً مصر، سعودی عرب، خلیجی ریاستیں ہرجگہ یہی حالت ہے۔ کہیں بھی صحیح معنوں میں اہل قیادت موجود نہیں ہے، اس صورتحال میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ کون امریکہ کی جگہ لے گا؟

سوال: اسلامی بنکوں کا دائرہ کافی وسیع ہوا ہے یعنی بہت سے اسلامی بنک اور ان کی شاخیں بنی ہیں لیکن عملی طور پر اس کا عام آدمی یا غریب آدمی کو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پس منظر میں معاشرہ اسلامی اقدار سے بالکل عاری ہے یہ اسلامی بینکاری نظام کسی نہ کسی طرح سے چلا دیا گیاہے۔ کیا اس بات کا خطرہ تو نہیں کہ اس طرح یہ بدنام ہوجائے اور آئندہ لوگ اس پر بھروسہ نہ کریں؟

جواب: عدل و انصاف 3جسے معاشرے اور زندگی کے ہر میدان میں رائج کرنا ہمارا مشن ہے 3 اس میں سے ایک معاشی نظام بھی ہے۔ معاشی نظام میں کس طرح سے عدل و انصاف کو راہ دی جاسکتی ہے؟ اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو نفع و نقصان میں شراکت ہے۔ اس لیے کہ اسلام کی رو سے یہ بہت ناانصافی ہے کہ آپ کسی کو قرض دیں، اس کو تجارت میں نقصان ہو رہا ہو اور آپ کو ایک طے شدہ مقررہ منافع مل جائے اور سارا نقصان وہ خود برداشت کرے۔ ایک تو انصاف کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے دوسرا یہ کہ معاشرے کے اندر منافع کی عادلانہ تقسیم ہو۔ پاکستان میں بنکوں کے پاس اثاثہ جات تقریباً 27ملین لوگوں کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 84فیصد وہ لوگ ہیں،جن کے اثاثے ایک لاکھ سے کم ہوتے ہیں اور جن کے اثاثے دس لاکھ سے اُوپر ہیں ان کاتناسب ایک فی صد سے بھی کم ہے۔لیکن جو لوگ بنک کو84فیصد کھاتے یا18فی صد اثاثے مہیّا کرتے ہیں ان کو بنک سے قرض کا کتنا حصہ ملتا ہے؟ کوئی سات فی صد۔(حوالہ کے لیے دیکھیے آئی پی ایس کی کتاب Essays on Muslims and the Challenges of Globalization.P214)۔ تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ چونکہ رقم کا ایک بڑا حصّہ معاشرے کے عام طبقے کی طرف سے آتا ہے لہٰذا قرض بھی انہیں ہی زیادہ دیا جانا چاہیے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امیر لوگوں کوقرض نہ ملے لیکن معاشرے کے عام غریب لوگوں کو بھی قرض ملنا چاہیے۔
چنانچہ عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک طرف تو نفع و نقصان میں شراکت ہو دوسری طرف معاشرے کے بڑے حصّے کو قرض فراہم کیا جائے۔ مگر ایسا نہیں ہورہا۔ اسلامی بنکوں میں بھی ایسا نہیں ہو رہا۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ وہاں ایسا کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن اداروں کو معاشرے میں سارے لوگوں کو قرض پہنچا نا چاہیے، وہ ادارے نہیں ہیں۔ ایسی ایجنسیز اور ادارے ہوتے ہیں جو تمام لوگوں کی کاروباری ساکھ کا پتہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر کسی کوقرض لینا ہے تو اس کے بارے میں سب کو پتہ ہو کہ وہ کس حد تک قابلِ اعتبار ہے کہ اس کو قرض دیا جاسکے۔ اس قسم کی معلومات ہی دستیاب نہیں ہیں تو یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ اسلامی بنک سارے لوگوں کو قرض دینگے۔ یہ ممکن نہیں ہے اگر ادارے بنے ہوں اور لوگوں کی کاروباری ساکھ کا صحیح اندازہ ہو۔ اس کے بعد فرض کریں کہ کوئی شخص نادہندہ ہوتا ہے تو اس کا۔ جسے واقعی نقصان ہوا ہے۔ کیس سمجھا جا سکتا ہے لیکن جو دھوکہ دہی کر رہا ہے تو اس سے بنک پیسہ وصول کرے گا۔
موجودہ صورتحال میں اگر بنک عدالت میں جاتا ہے تو اسے پیسہ وصول کرنے ہی میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بنک کی خصوصی اور شرعی عدالتیں ہوں، جہاں کیس جائیں اور دو تین مہینے میں تصفیہ ہوجائے تاکہ پیسہ واپس مل سکے۔ ایسا ادارہ بھی نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ان لوگوں کے بارے میں علم نہیں ہے جو قرضہ لینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے ادارے نہیں ہیں جن کی وجہ سے آپ کا قرضہ جلد ی واپس مل سکے۔ تیسری چیز یہ کہ اگر کوئی بینک کو دھوکہ دیتا ہے تو آپ کے پاس ایسا نظام ہونا چاہیے جس کے ذریعے آئندہ کے لیے اس پر پابندی لگادی جائے۔ چیمبرز آف کامرس، ٹریڈ ایسوسی ایشنز اور مختلف بینکوں میں اس کا نام پہنچایا جائے، اخبارات میں اس کی نااہلی کے متعلق بتایا جائے تاکہ لوگ بد نامی سے ڈریں کیونکہ لوگ اپنی عزت کسی قیمت پر کم نہیں کرنا چاہتے یہ اقدام کیے جائیں گے تو لوگ جان بوجھ کر نادہندہ نہیں ہوں گے۔
ان تمام اداروں کی عدم موجودگی میں یہ توقع کرنا کہ اسلامی بنک، اصل معنوں میں اسلامی ہوجائیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہماری توقعات فوری طور پر بہت زیادہ نہیں ہونی چاہییں۔ ورنہ ہم اسلامی مالیات کے بارے میں رائے خراب کردیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ صبر سے کام لیں اور صرف بینکوں کو ہی لعن طعن نہ کریں بلکہ پورے نظام میں جن چیزوں میں خامیاں اور کمزوریاں ہیں، اُن کی نشاندہی کریں ۔

سوال: بنکوں کے ضمن میں اسلامی بنکوں کی بات کی جاتی ہے ، انشورنس کی بات ہوتو اسلامی انشورنس یا تکافل کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح سے سٹاک ایکسچینج کا بھی ایک پُورا نظام ہے۔ کیا یہ اسلامی ذہن کے خدشات کو مکمل طور پر ختم کرتا ہے یا اس کا بھی کوئی اسلامی متبادل موجود ہے یا ہونا چاہیے؟

جواب: اس کے بارے میں خاصا لکھا جا چُکا ہے کہ اسلامی سٹاک ایکسچینج میں کیا چیزیں ہونی چاہییں۔ سٹاک ایکسچینج میں بعض چیزیں مثلاً Short Selling وغیرہ ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوتا ہے:
لا طبع مالیس عندک (وہ چیز نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے)
اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو فروخت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نہ صرف اس کے مالک ہوں بلکہ وہ چیز موجود بھی ہو۔ مثلاً اگرگاڑی اس وقت آپ کے پاس نہیں ہے توآپ اس کو بیچ نہیں سکتے۔ اس لیے کہ پتہ نہیں گاڑی کب ملے گی اور کس حالت میں ہوگی؟ آپ کو نہیں معلوم کہ اس کے سب ٹائرز چوری ہوگئے ہوں یا بہت ساری چیزیں چوری ہوچکی ہوں۔ اس کی قیمت کس طرح طے کی جاسکتی ہے۔ یہ غرر (دھوکہ) میں شمار ہوگا اور آپ ایسی گاڑی نہیں بیچ سکتے۔ لیکن Short Sellingمیں ایسا نہیں ہوتا۔ Short Sellingیہ ہے کہ جیسے ہی آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں حصص(Shares)کے دام گرنے والے ہیں تو اُنہیں خرید کرDeliveryدے دی جاتی ہے۔ یہ غلط طریقہ ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس حصص نہیں ہیں تو آپ بیچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن مارکیٹ میں اس سے بھی زیادہ گھپلا ہوتا ہے کہ اس میں deliveryبھی نہیں دی جاتی۔ حقیقتاً ہوتا یہ ہے نہ آپ حصص خرید تے ہیں نہ کوئی اور آپ کو بیچتا ہے وہ ایسے ہی کتابی یازبانی جمع تفریق ہوتا ہے کہ خریدو فروخت کے بغیر معاہدہ ہو جاتا ہے۔ یہ چیزیں درست نہیں ہیں۔

سوال: آپ نے علم و تحقیق کے میدان میں ایک طویل عمر گزاری ہے یقیناًآپ کے مشاہدات و تجربات سے فائدہ اٹھانا دیگر لوگوں کے لیے بھی مفید ہوسکتا ہے۔ آپ کے خیال میں ایسی کیا چیز ہے جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکے؟

جواب: پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ العُسْرِ یُسْرًا (مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ یقیناًمشکل کے ساتھ آسانی ہے۔) مشکل سے مراد ہے محنت کیونکہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں۔ مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جا کر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے کیونکہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔کتاب ’’عربی کامعلم‘‘ جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ میں نے خود اس کی ابتدائی دو جلدیں پڑھیں اور اس سے اتنی عربی آگئی کہ ہم اپنا کام آگے بڑھا سکیں۔ قرآن و حدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا لیکن آپ لوگ جو اسلامک اسٹڈیزمیں کام کر رہے ہیں،ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مُفر نہیں ہے۔اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔
جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن پر وقت صرف کریں تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور خصوصیت سے علمی کام تو ہو ہی نہیں سکتا۔ میں تو ٹیلی وژن دیکھتا ہی نہیں ہوں۔ کبھی کبھار اگر کوئی بتادے کہ کوئی اہم تقریر یا خطاب ہے تو محض وہ سُن لیتا ہوں۔ ٹیلی ویژن سے حاصل شدہ معلومات محض وقتی ہوتی ہیں اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کر سکیں، کیجئے۔ مطالعہ کا بھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں ۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے، موضوع کی مناسب سے پڑھیں اور نوٹس لیں اس کے بعد اپنی outlineکی مناسبت سے لکھیں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر تکبّر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہو جاتا ہے کیونکہ تکبّر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کوکئی مرتبہ دہرائیں۔ گیل وریتھ جو کہ ایک بہت بڑا مصنّف ہے، اُس کا کہنا ہے کہ میں اپنی تحریر کو کئی مرتبہ دہرانے کے بعد مطمئن ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی اُمید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویّہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کر دے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں۔ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ یعنی سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا، اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھناہے تو اس سے متعلقہ چیزوں کا مطالعہ کرنا، نوٹس لینا، پھر پیپر لکھنا، اس کو کئی بار دہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا، تبصروں کی مناسبت سے دہرانا ۔فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِہ یُسْرًا۔ پھر آپ کو آپ کی محنت کا صِلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزّت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ اور ظاہر ہے کہ آپ کو ایک تحقیقی ادارے میں ہوتے ہوئے تو اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ آپ اپنا مطالعہ و سیع تر کریں۔ اگر ٹی وی دیکھتے ہیں تو اس کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ چھٹی والے دن کچھ گھر کے کام کرلیں اور کچھ مطالعہ وغیرہ بھی کرلیں شام کو گھر پر جا کر پھر مطالعہ ضرور کریں۔ پڑھنے لکھنے والوں کے لیے تو فارغ وقت ہوتا ہی نہیں، انہیں سارا وقت محنت کرنی ہے۔ گھر جا کر بھی پڑھنا ہے، دفتر میں بھی مطالعہ کرنا ہے۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی ۔فرق صرف یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔ زندگی میں اپنے سامنے اسے نشانِ راہ کے طور پر رکھیں:
’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔

سوال: پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے آپ کی زندگی میں آنے والے نمایاں چیلنجز کون سے تھے اور آپ نے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟

جواب: چیلنجز تو انسان کی زندگی میں بہت آتے ہیں۔ آپ کا رویہ یہ طے کرتا ہے کہ آپ ان سے ڈر کرہمت ہار بیٹھتے ہیں یا چٹان کا سا حوصلہ لے کر اُسے قبول کرتے ہیں مثلاً آپ کو کسی نے لیکچر دینے کے لیے کہا۔ ایک رویّہ یہ ہے کہ آپ بھاگ کھڑے ہوں کہ میں لیکچر نہیں دیتا۔ اس کی بجائے دوسرا رویّہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اسے قبول کریں۔ محنت کریں مطالعہ کے بعد اپنے نوٹس بنائیں۔ اپنے طور پر وہ لیکچر خود اپنے گھر میں دیں۔ اس کے بعد وہاں جائیں اور تیار شدہ لیکچر دیں تو آپ کا لیکچر یقیناًاچھا ہوگا۔ لیکن اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو معلوم نہیں آپ کو کتنی کامیابی ملتی ہے۔ شروع میں یہ کرنا پڑتا ہے بعد میں لیکچر دینا جب آپ کی عادت بن جاتی ہے تو پھر نوٹس کافی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے آپ کو کوئی مقالہ لکھنا ہے تو بھی یہی کرنا ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ موضوع کی مناسبت سے Outlineبنائیں مواد تیار کریں، لکھیں۔ لکھنے کے بعد اس کو مزید بہتر کرتے رہیں۔ پھر کسی کے تبصرے پر ناراض ہونے کی بجائے، اس کی روشنی میں بہتر کریں۔

سوال: آپ نے پاکستان اور بیرون ملک تعلیم بھی حاصل کی اور تحقیقی کام بھی کیا۔ دنیا میں مختلف انداز میں ہونے والی تحقیق کو آپ کیسے دیکھتے ہیں اور اگر پاکستان میں تحقیق کو فروغ دینا چاہیں تو ہمارے لیے ضروری عناصر کیا ہیں؟

جواب: باہر کے ممالک میں تحقیق کے لیے لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔یہاں لوگ محنت کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ بیرون ممالک لوگ اپنے مقالہ جات کو خود بار بار پڑھتے ہیں لوگوں کو بتاتے ہیں تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، اس دوران نوٹس لیتے رہتے ہیں ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں یہ ایک سکالر کی صفات ہیں۔ بعض اوقات آپ کی تحریر پر بہت سخت قسم کی تنقید بھی ہو سکتی ہے لیکن تنقیدکرنے والے سے ناراض ہوکر کام نہیں چل سکتا۔
دوسری چیز یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ ٹانگ کھینچتے ہیں، آپ کے خلاف سازشیں بھی کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے، کوئی ہم کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی ہمیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ قرآن میں کئی مقامات پر اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہر آپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتہ چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا عسیٰ ان تکر ھوا شیئاً وھو خیراً لکم (ممکن ہے تم ایک چیزکو ناپسند کرو اور وہ تمہارے ہی حق میں اچھی ہو)۔ خود میرے ساتھ بہت سے مواقع پر ایسا ہوا کہ شروع میں محسوس ہوا کہ جیسے یہ بہت بُرا ہوا لیکن بالآخر اس کا نتیجہ میرے حق میں ہی رہا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو بُرا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں ہے، وہ اللہ کی ذات ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر اللہ نے نہ چاہا تو ترقی کوئی دے نہیں سکتا۔ ہمارا یہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا، اللہ ہی کی ذات سے ملے گا اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے اوراُسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔

سوال: کیا علمی دنیا میں آپ کا قدم رکھنا محض اتفاق تھا یا آپ کا سوچا سمجھا شعوری فیصلہ تھا دوسرا سوال یہ کہ آپ نے معاشیات میں کام کا آغاز کیا۔ لیکن وہ کیا چیز تھی جس کی وجہ سے آپ نے فیصلہ کیا کہ معاشیات کی بجائے اسلامی معاشیات کو اپنا موضوع بنایا جائے؟

جواب: میں اصل میں تو انجینئرنگ یا طب کے شعبے میں جانا چاہتا تھا اور میرے گریڈز بھی بہت اچھے تھے، لیکن معاشی حالات ایسے تھے کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنا پڑھ سکوں گا اگر دوسال انجینئرنگ یا طب پڑھ بھی لیتا تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ میں نے سوچا کہ اگر کامرس لیتا ہوں اور دو سال کے بعد چھوڑنا بھی پڑے تو یہ کام کی چیز ہوگی اس لیے میں نے کامرس کا انتخاب کیا۔ الحمداللہ بی۔کام کرلیا پھر اس کے بعد ایم ۔کام بھی کیا لیکن اس سارے عرصے کے دوران میری زندگی میں کوئی موقع ایسا نہیں آیا کہ مجھے نوکری نہ کرنی پڑی ہو۔ سبھی لوگ اس طرح سے کر سکتے ہیں کہ ملازمت بھی کریں اور ساتھ میں تعلیم حاصل کریں۔ یہ انسان کے لیے مفید ہی رہتا ہے کیونکہ پھر محنت کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔ اگر زندگی آسان ہوتو انسان سہل پسند ہوجاتا ہے۔
جہاں تک دوسرے سوال کاتعلق ہے تو جب میں نے کامرس میں داخلہ لیا وہاں پروفیسر خورشید احمد وغیرہ سے ملاقات ہوئی وہ تھرڈایئرمیں تھے اور میں فرسٹ ائیر کا طابعلم تھا۔ کالج میں اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ پھر اس طرح سے اسلامی معاشیات اور اسلامی بنکنگ وغیرہ میں دلچسپی بڑھی۔ انٹر تک اکاؤنٹنگ (Accounting)لازمی تھی اس کے بعد اختیار ی تھی میں نے تیسرے اور چوتھے سال میں Bankingکا مضمون لیا۔ پھر ایم۔کام کیا۔ امریکہ گیا تو وہاں پی ایچ ڈی میں بھی میرا موضوع Money and Banking and economic development۔ اس طرح اس میدان سے زیادہ تعلق رہا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں سے کچھ زیادہ ملتا نہیں ہے۔ ہم نے جو کچھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھا، اس سے مجھے اسلامی معاشیات پر لکھنے میں کچھ زیادہ مدد نہیں ملی۔ آدمی کے لکھنے اورپڑھنے کی ایک صلاحیت رسمی تعلیم ختم ہونے کے بعد بنتی ہے۔ اس میں محنت کا عمل دخل ہوتا ہے کہ آپ کتنی محنت کرتے ہیں۔ آدمی بار بار سوچتا ہے، لکھتا ہے، اس کی اصلاح کرتا ہے، لوگوں سے رائے لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے وہ مواد مل جائے گا جس کے ذریعے آپ بعد میں لکھ سکیں گے۔ اگر اب حالات بدل گئے ہوں تو اور بات ہے۔میں نے تو مشنری سکول میں پڑھا تھا جہاں اسلام کا کوئی دخل نہیں تھا، اس کے بعد سندھ گورنمنٹ کالج آف کامرس میں پڑھا، اس میں بھی اسلام کا کوئی دخل نہیں تھا اسلامیات بھی نہیں تھی۔ اسلامی معاشیات کا تو اُس وقت تک وجود ہی عنقاتھا۔ اسلامی بینکنگ کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی اس وقت اسلامی مالیات کی بات کرتا تو لوگ کہتے کہ یہ پاگل ہے جسے دُنیا کا کچھ پتہ نہیں۔ اسلامی مالیات کے متعلق ہمیں بھی امریکہ جا کر معلوم ہوا۔ اس وقت جو کتب دستیاب تھیں ان میں ایک انور اقبال قریشی کی Islam and the theory of interest، ایک محمود شیخ راولا کوٹ کی کتاب Islamic Economicsاور مولانا مودودی کی کتاب’’ انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا حل‘‘ تھی مگر یہ سب بہت ہی ابتدائی سطح کی کتابیں تھیں۔ آدمی کو آگے بڑھنے کے لیے خود محنت کرنا پڑتی ہے۔ آپ لوگ اگر محنت کریں تو آپ کو تو یہ سہولت حاصل ہے کہ ہر موضوع پر کمپیوٹر اور دیگر ذرائع کے ذریعے بے پناہ مواد موجود ہے لیکن ہمیں یہ سہولت دستیاب نہیں تھی، جس وقت میں امریکہ میں تھا اور کونسل میں پڑھا رہا تھا تو معاشیات پر لکھنے میں میرا کام ان کی ایک ریسرچ گرانٹ سے شروع ہوا۔ اس کام کے لیے انہوں نے ڈھائی سوڈالر مختص کیے تھے جو اس وقت ایک بہت بڑی رقم تھی اس رقم سے میں نے تفسیر، حدیث اورفقہ کی کتابیں خریدیں۔ ایک غیر مسلم ملک کے وظیفے سے میں نے اسلام پر اپنے کام کا آغاز کیا۔
تحقیقی کام کے حوالے سے خصوصاً اور ہر کام کے لیے عموماً ذہن میں ہر وقت یہ بات رکھنی چاہیے کہ جو محنت کرنے کو تیارّ نہیں ہے وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ آپ اس کو سنہری حروف میں لکھ لیں کہ محنت کے بغیر زندگی میں کوئی کامیابی ممکن نہیں۔

سوال: آپ نے سعودی عرب میں خاصا وقت گزار اور وہاں پر بڑی اچھی جگہ خدمات سرانجام دیں۔ آ پ نے کبھی سوچا کہ پاکستان کے لیے بھی آپ کوئی کام کریں؟

جواب: میں تو پاکستان آنا چاہتا تھا لیکن یہاں کے لوگ مجھے ملازمت دینے کو تیار ہی نہیں تھے۔ یا تو اداروں میں سیاست بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے میں واپس امریکہ چلا گیا۔ پھر سعودی عرب سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو وہاں چلا گیا اس کے بعد بھی کوشش یہی تھی کہ دو تین سال بعد پاکستان آجاؤں۔ اس دوران مختلف یونیورسٹیز میں ملازمت کی درخواست بھی دی مگر اس درخواست کا جواب تو درکنار درخواست وصول ہونے کی ایک رسید تک موصول نہ ہوئی۔ اس لیے اگر پاکستان میں ملازمت ملتی تو آجاتا۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا عسیٰ ان تکر ھو اوالی بات ہے یعنی میں پاکستان آکر وہ کام نہیں کرسکتا تھا جو میں نے سعودی عرب اور امریکہ میں رہ کر کیا۔

 

 

ماخذ: تحقیق ۔۔ تصورات اور تجربات ( آئی پی ایس کی غیر مطبوعہ کتاب)

نوعیت: خصوصی نشست

تاریخ: ۲ مارچ ۲۰۱۰

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے