عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر

globalization

عالمی مالیاتی بحران پر ایک نظر

 

 

 

 

 

مالیاتی بحران کے اسباب
عالمی مالیاتی بحران کی وجوہات میں پہلی وجہ تو نفع و نقصان میں شراکت نہ ہونا تھی۔ اس کے علاوہ قرض کا بے تحاشہ پھیلنا اور جس چیز نے بنکوں کو بلا تامل قرض دینے پر آمادہ کیا وہ تھا Credit default Swaps۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ بنکوں کو یقین تھا کہ مرکزی بنک ان کی مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ کاروباری ساکھ کا اندازہ لگانے اوردرجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں کے منفی کردار نے بھی بحران میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہ اس طرح سے کہ ان ایجنسیوں نے بنک کے نادہندہ ہونے کے باوجود ان کی اچھی درجہ بندی کردی۔ چنانچہ لوگوں نے اس سے Swapsخرید لیے۔ بے ایمانی اس طرح سے ہوئی کہ یہاں ایجنسیوں کا اپنا مفاد آڑے آگیا چونکہ ایجنسیوں کو ادائیگی تو بنکوں یا hedge fundsہی سے ہوتی ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اگر اچھی درجہ بندی نہ کی گئی تو کاروبار ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا چنانچہ انہوں نے بنکوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر ہی، بغیر خود تحقیق کیے بنکوں کو بہتر سے بہتر درجہ دیا تاکہ لوگوں میں بنکوں کا اعتماد قائم رہے اور ایجنسیوں کا کاروبار چلتا رہے، تو یہ ایک اور سبب تھا جس کی وجہ سے قرض کے دینے میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ ایک اور چیز جس کی وجہ سے قرض دینے میں اضافہ ہوا وہ ہے قرض کی فروخت (Sale of debt)۔ اسلام میں قرض کو بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر آپ نے کسی کو قرض دیا ہے تو آپ اس کی سند (Script)کو بیچ نہیں سکتے۔ آپ کو خود ہی اس کی واپسی یا واپس نہ ہونے کے خدشے کو برداشت کرنا ہوگا۔ ایک زمانہ تھا کہ مجھے بھی یہ خیال آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی کیوں لگائی ہے؟ مگر اب واضح ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ہمیشہ صحیح کہتے ہیں۔کیونکہ اگر یہ پابندی نہ ہو اور آپ قرض کی سند کو بیچنے میں آزاد ہوں تو یہ ہوگا کہ آپ نے کسی کو یہ سند بیچ دی، اس نے کسی اورکو اور اس نے مزید آگے بیچی۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور آپ قرض دینے میں کیوں اچھی طرح سے چھان بین اور تحقیق کریں گے کیونکہ اس کی سند کو بیچ دینے کی صورت میں آپ کا خدشہ (Risk)تو ختم ہوگیا۔ آپ کے لیے تو کوئی خدشہ نہیں ہے اگر ڈر ہے تو اُس شخص کو جس کے پاس آخری بار وہ سند آئے گی۔ ممکن ہے کہ اس دوران بیسیوں ہاتھ بدل چُکے ہوں اور اس آخری شخص کو یہ بھی علم نہ ہو کہ کس نے قرض دیا تھا اور کس نے لیا تھا، مگر یہ سب ہوتا رہا اور قرض پھیلتا گیا۔ اگر اسلام کی اس تعلیم پر عمل کیا جاتا ہے کہ آپ قرض کو بیچ نہیں سکتے تو ایسا نہ ہوتا۔

"عالمی مالیاتی بحران کی وجوہات میں پہلی وجہ تو نفع و نقصان میں شراکت نہ ہونا تھی۔ اس کے علاوہ قرض کا بے تحاشہ پھیلنا اور جس چیز نے بنکوں کو بلا تامل قرض دینے پر آمادہ کیا وہ تھا Credit default Swaps۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ بنکوں کو یقین تھا کہ مرکزی بنک ان کی مدد کرے گا۔ اس کے علاوہ کاروباری ساکھ کا اندازہ لگانے اوردرجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں کے منفی کردار نے بھی بحران میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہ اس طرح سے کہ ان ایجنسیوں نے بنک کے نادہندہ ہونے کے باوجود ان کی اچھی درجہ بندی کردی۔ "
عربی میں ایک مقولہ ہے ’’من اَمِنَ من العقاب فلیفعل مایشاء‘‘ (جس کو سزا سے امن مل گیا (یعنی جس کو یقین ہے کہ اس کو سزا نہیں ہوگی) تو پھر جو چاہے کرے )۔اگر چور کو پتہ ہو کہ وہ چوری کرے گا تو پکڑا نہیں جائے گا اور اگر پکڑا بھی گیا تو دوچار روپے رشوت دے کر چُھوٹ جائے گا تو پھر وہ کیسے چوری سے باز رہ سکے گا۔ الاّ یہ کہ اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس ہو کہ دنیا میں سزا سے بچ بھی جائے توآخرت میں نہیں بچ سکتا۔ لیکن جب آپ دین کو معاشرے کے اندر کمزور کردیں، لوگوں کے ذہن میں آخرت کے حساب کا کوئی تصور نہ ہو تو پھر یفعل مایشاء (جو چاہے کرتے رہو)۔ معاشی نظام میں یہی ہوتا رہا کہ ایک طرف تو قرضہ دینے کے لیے اچھی طرح سے چھان بین نہیں کی گئی۔ قرض کو بیچنے کی اجازت بھی مل گئی اور قرض کو بیچنے میں right of recourseکا خیال بھی نہ رکھا گیا۔ Right of Secourseیہ ہے کہ اگر میں نے آپ کو قرض بیچا اور وہ قرض لینے والے کی طرف سے نادہندہ ہوتا ہے تو پھر وہ مجھ سے پیسے طلب کر سکتا ہے اس سے نہیں جس کو قرض دیا گیا تھا وہ تو نادہندہ ہے لیکن میں پہلا شخص ہوں جس نے یہ قرض دیا تھا۔ اگر یہ حق بھی استعمال کیا جاتا تو کسی حد تک قرض کے پھیلاؤ میں کمی آسکتی تھی لیکن یہ بھی ختم کر دیا گیا۔ چنانچہ قرض میں اضافے کے لیے ہر طرح سے کُھلی چھوٹ دی گئی اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے نفع کو زیادہ سے زیادہ بڑھاؤ اور نفع اسی صورت میں بڑھایا جاسکتا ہے جب آپ زیادہ سے زیادہ قرض دیں، آپ قرض دیتے چلے جائیں ، اس کو بیچیں، آپ کو کمیشن بھی ملے گا اور سود کا کچھ حصّہ بھی چنانچہ آپ کو اپنا منافع بڑھانے کا موقع مل گیا اور اگر کوئی شخص نادہندہ ہوتا ہے تو آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، پھر آپ جو چاہیں کریں۔ اسی طرح بڑے بنکوں کو مرکزی بنک نے یہ یقین دہانی کرادی کہ انہیں کسی صورت نادہندہ نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ اگر بڑے بڑے بنک ناکام ہوجائیں تو ملک کی پوری اقتصاد ٹھپ ہوجائے گی مثلاً اگر کسی بنک کے پاس چھ سو ٹریلین کے اثاثہ جات (deposits)ہیں اور یہ ناکام ہو تا ہے تو سارے ملک کی معیشت مشکل میں مبتلا ہو سکتی ہے چنانچہ بڑے بنکوں نے بھی اس یقین دہانی کی بنا پر اپنی مرضی کی پالیسیاں بنائیں۔
"اسلام میں قرض کو بیچنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر آپ نے کسی کو قرض دیا ہے تو آپ اس کی سند (Script)کو بیچ نہیں سکتے۔ آپ کو خود ہی اس کی واپسی یا واپس نہ ہونے کے خدشے کو برداشت کرنا ہوگا۔ ایک زمانہ تھا کہ مجھے بھی یہ خیال آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی کیوں لگائی ہے؟ مگر اب واضح ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ہمیشہ صحیح کہتے ہیں "
یہ وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے قرضوں میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ دھوکہ دہی کا عنصر قرض کے پھیلاؤ میں حصہ دار بنا۔ دھوکہ دہی اس طرح سے کہ کریڈٹ کارڈذ وغیرہ کے کلچر کے ذریعے قرض کو بہت خوشنما بنا کر رواج دینے کی کوشش کی گئی ۔ اگر آپ کو نقد ادائیگی کرنا ہو تو پہلے آپ اپنی جیب ٹٹولتے ہیں اگر رقم پُوری نہ ہو تو آپ وہ چیز نہیں خریدتے اس طرح آپ کی معیشت آپ کے ہاتھ میں رہتی ہے لیکن Credit cardsکے ذریعے قرض پر خریداری کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اوسط امریکی خاندان (جو پانچ سے چھ افراد پر مشتمل ہوتا ہے) کے پاس تیرہ، چودہ کریڈٹ کارڈز ہوتے ہیں ۔ یہ افرادِ خانہ کے پاس نہیں بلکہ خاندان کے پاس موجود مجموعی کارڈز کی تعداد ہے۔ اور ان کارڈز کو استعمال کرنے کے لیے بہت ترغیبات دی جاتی ہیں۔ (پاکستان میں بھی اس کلچر کو بہت خوشنمابنا کر پیش کیا جاتا ہے) امریکہ میں گھریلو صارفین یا پرائیویٹ سیکٹر کا قرض پُوری امریکن GDPکا 110فیصد ہے یعنی پوری GDPسے بھی زیادہ قرض ۔ چنانچہ جب قرض کا اتنا زیادہ پھیلاؤ ہوگا تو مشکلات یقیناًبڑھیں گی۔
"اگر چور کو پتہ ہو کہ وہ چوری کرے گا تو پکڑا نہیں جائے گا اور اگر پکڑا بھی گیا تو دوچار روپے رشوت دے کر چُھوٹ جائے گا تو پھر وہ کیسے چوری سے باز رہ سکے گا۔ الاّ یہ کہ اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس ہو کہ دنیا میں سزا سے بچ بھی جائے توآخرت میں نہیں بچ سکتا۔ لیکن جب آپ دین کو معاشرے کے اندر کمزور کردیں، لوگوں کے ذہن میں آخرت کے حساب کا کوئی تصور نہ ہو تو پھر یفعل مایشاء (جو چاہے کرتے رہو)”
دھوکہ دہی اس طرح سے بھی ہوئی کہ لوگوں کو قرض لینے کے لیے آمادہ کیاگیا Teasing rateیعنی سود کی ایسی شرح جو بدلی جاسکتی ہے کے ذریعے صارفین سے کہا گیا کہ پیشگی ادائیگی کے بغیر اشیاء خرید لیں پھر یہ کہا کہ شروع کی دو ، تین قسطوں کی ادائیگی بھی نہ کریں، اس کے بعد شروع کریں چنانچہ بہت سے لوگ راغب ہوئے اور قرض پر چیزیں /سامان خریدا گیا لیکن آخر کار جب ادائیگی کا وقت آیا تو مشکلات پید ا ہوگئیں کیونکہ یکدم سُود کی شرح بہت بڑھا دی گئی۔ اس دھوکہ دہی کی وجہ سے بھی قرض بڑھا۔ اس سب دھوکہ دہی کا اعتراف امریکہ کے مرکزی بنک کے گورنر بین برنانکے نے بھی کیا۔ اس نے کہا کہ منڈی میں غیر اخلاقی طریقے اختیار کیے گئے۔ لیکن جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ خاموش رہے۔ گرین سپین جو برنانکے سے پہلے امریکن فیڈرل ریزرو کے چیئرمین تھے وہ مغربی فلسفے لبرل ازم کے حامی تھے۔ اس فلسفے کی رُو سے لوگوں کو ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیے اور اس آزادی پر آپ کسی قسم کی قد غن نہیں لگا سکتے۔ چنانچہ مرکزی بنک کے لیے بھی یہی پالیسی ہوگئی کہ وہ تمام معاملات منڈی کے حوالے کردے۔ وہ خود اپنی نگہبانی کر لے گی۔ اگر دھوکہ دہی ہو رہی ہوگی تو منڈی خود اسے روک لے گی۔ درحقیقت یہ منڈی کاکام نہیں ہے یہ کام تو حکومتوں کا ہوتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے ’’ ان اللہ لَیَضَعْ بالسلطّان اکثر ممّا یضع بالقرآن‘‘ (اللہ تعالیٰ جتنا قرآن کے ذریعے روک سکتا ہے اس سے زیادہ حکومت کے ذریعے روکتا ہے‘‘۔ قرآن آپ کو ہدایات تو دے سکتا ہے لیکن اپنی تعلیمات کو خود نافذ نہیں کر سکتا یہ حکومت کا کام ہے۔ لبرل ازم کے فلسفے کی وجہ سے یہ مصیبت ہوگئی کہ دھوکہ دہی کھلم کھلا چل رہی تھی لیکن مرکزی بنک اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا تھا۔ اور لوگ اس پر نازاں تھے کہ معیشت دن بدن ترقی کر رہی ہے حالانکہ یہ روز بروز قرض میں اضافہ ہو رہاتھا۔آخری چیز جو قرض میں اس بے تحاشہ اضافے کو روک سکتی تھی وہ فیڈرل ریزرو تھا لیکن اُس نے بھی کچھ نہ کیا۔ لہٰذا قرض میں اضافہ ہوتا چلا گیا پھر جب معیشت زوال پذیر ہونا شروع ہوئی تو یکے بعد دیگرے نادہندگی شروع ہوگئی اور اس کے بعد مشکلات بڑھتی گئیں۔
بہر حال اس ساری صورتحال کو کسی نہ کسی طرح حکومتوں نے سنبھال لیا اور تقریباً 1.3ٹریلین ڈالرز حکومتوں نے ادا کیے۔یہ سارا پیسہ یا تو ٹیکس ادا کرنے والوں کو مزید ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں دینا ہوگا یا پھر مزید نوٹ چھاپیں جائیں گے۔
"اس سب دھوکہ دہی کا اعتراف امریکہ کے مرکزی بنک کے گورنر بین برنانکے نے بھی کیا۔ اس نے کہا کہ منڈی میں غیر اخلاقی طریقے اختیار کیے گئے۔ لیکن جس وقت یہ سب کچھ ہو رہا تھا وہ خاموش رہے”
مستقبل کا نقشہ
اب بات یہ ہے کہ مستقبل کا کیا نقشہ دکھا ئی دیتا ہے؟ جس وقت یہ مالیاتی بحران شروع ہوا تو بنکوں کے محفوظ اثاثہ جات کی مالیت 40بلین ڈالرز تھی۔ اب حکومتوں اورفیڈرل ریزرو نے رقم ادا کرکے بنکوں کو سنبھالا دیا ہے اور ان کے محفوظ اثاثہ جات کی رقم تقریباً 800بلین ڈالرز ہے یعنی پہلے سے تقریباً 20گُنا زیادہ۔بحران کی وجہ سے بنکوں نے ہاتھ روک لیے تھے۔ اس کی وجہ سے معیشت نیچے جانے لگی اب منڈی میں پھر تھوڑا سا اعتماد آجائے گا لیکن آپ اندازہ کریں کہ جب 40بلین ڈالرز کی وجہ سے ایسی زبردست تباہی آئی تو 800بلین ڈالرز کیا کریں گے۔ مارکیٹ کو تھوڑا سا اعتماد آجائے تو پھر سُود میں بے انتہا اضافہ ہوگا۔ اس وقت شرح سُود کو اس لیے کم رکھا گیا ہے کہ معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ شرح سُود کم ہوگی تو لوگ زیادہ قرض لیں گے یہ چیز تباہی مچانے کا باعث بنے گی۔ کیونکہ قرض کا زیادہ پھیلنا ہی بحران کا اصل سبب ہے، اس اصل سبب کو دوبارہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ پچھلے سارے بحرانوں میں بھی یہی ہوا کہ قرض بہت زیادہ لیا گیا جس کی وجہ سے بحران آیا، اس بحران کو سنبھالنے کے لیے مرکزی بینک اور حکومتوں نے رقوم خرچ کیں۔ بنکوں کے محفوظ اثاثہ جات بڑھ گئے۔ جب مارکیٹ میں ذرا اعتماد آیا تو پھر بہت زیادہ قرض لیا گیا۔ پھر بحران آیا تو اس کو دور کرنے کے لیے جوزہر پہلے دیا گیا تھا اس زہر میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ اقتصاد تھوڑی سنبھل گئی پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ قرض کے بہت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بحران آگیا۔ یعنی جو دوا ہے وہی زہربن جاتی ہے۔ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے کہ بحران سے نکلنے کے لیے شرح سُود بھی انتہائی کم رکھی گئی ہے، حکومت خرچ کر رہی ہے، بینک بھی قرضے دے رہے ہیں لیکن اس سے اگلاجو بحران آئے گا وہ موجودہ بحران سے بھی زیادہ شدّت والا ہوگا۔ بحران کی سنگینی میں مزید اضافہ کرنے والی چیز یہ ہے کہ امریکی حکومت کا خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس خسارے کی وجہ سے بنکوں کے پا س High Powered Money (یعنی وہ محفوظ اثاثہ جات جس کی بنیاد پر وہ قرضے دے سکتے ہیں) پیدا ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کے بعد جو اگلا بحران آئے گا وہ کس قدر شدید ہوگا کیونکہ بینکوں کے اثاثہ جات، حکومتوں کے بے انتہا خرچ کرنے کی وجہ سے 800بلین ڈالر ز سے بھی بڑھ جائیں گے، اسی تناسب سے قرض میں اضافہ ہوگا ۔ حکومت پھر اس وقت بھی خسارے کو کم کرنے کے لیے امداد دے گی، یہ سلسلہ چلتا رہے گا، یہاں تک کہ ایک وقت آئے گا جب معیشت کا یہ سارا ڈھانچہ بیٹھ جائے گا۔ ان شاء اللہ اس وقت لوگ باور کریں گے کہ اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔

 

” وہ مغربی فلسفے لبرل ازم کے حامی تھے۔ اس فلسفے کی رُو سے لوگوں کو ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیے اور اس آزادی پر آپ کسی قسم کی قد غن نہیں لگا سکتے۔ چنانچہ مرکزی بنک کے لیے بھی یہی پالیسی ہوگئی کہ وہ تمام معاملات منڈی کے حوالے کردے۔ وہ خود اپنی نگہبانی کر لے گی۔ اگر دھوکہ دہی ہو رہی ہوگی تو منڈی خود اسے روک لے گی۔ درحقیقت یہ منڈی کاکام نہیں ہے یہ کام تو حکومتوں کا ہوتا ہے "
"لبرل ازم کے فلسفے کی وجہ سے یہ مصیبت ہوگئی کہ دھوکہ دہی کھلم کھلا چل رہی تھی لیکن مرکزی بنک اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہا تھا۔ اور لوگ اس پر نازاں تھے کہ معیشت دن بدن ترقی کر رہی ہے حالانکہ یہ روز بروز قرض میں اضافہ ہو رہاتھا۔آخری چیز جو قرض میں اس بے تحاشہ اضافے کو روک سکتی تھی وہ فیڈرل ریزرو تھا لیکن اُس نے بھی کچھ نہ کیا۔ لہٰذا قرض میں اضافہ ہوتا چلا گیا "

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے