’’طرزِ حکمرانی کی غربت ‘‘ ہماری قومی ترقی کی راہ میں حقیقی رکاوٹ ہے۔ خالد رحمن
اسلام آباد، (۱۸ اپریل ۲۰۱۲ء)
’’بڑی طاقتیں ترقی پذیر ممالک کی معاشی بہتری کے لیے اتناہی مخلص ہیں جتنا ایک گاؤں کا چوہدری اپنے غریب مزارعوں کی بہتری کے لیے فکر مند ہوتاہے۔ دنیا میں شائد ہی کسی ملک کی مثال دی جاسکے جو آئی ایم ایف کے نسخوں پرعمل کرکے اپنے معاشی مسائل سے نجات پاسکاہو۔‘‘ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے ضلعی سرکاری افسروں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ یہ ضلعی سرکاری افسران اختر حمید خان نیشنل سنٹر فار رورل ڈویلپمنٹ اسلام آباد کے تحت ’’غربت کے خاتمے میں پائیداری کے مسائل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ تربیتی کورس کے شرکاء کی حیثیت سے آئی پی ایس کا دورہ کررہے تھے۔یہ وفد AHK-NCRDکے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب ایاز اختر انصاری کی سربراہی میں مختلف ضلعی شعبوں کے افسران پر مشتمل تھا جو سندھ، پنجاب، خیبرپختون خوا اورآزاد جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع سے یہاں جمع ہوئے تھے۔وفد سے بات چیت کرتے ہوئے خالد رحمن نے کہاکہ ہمارے ملک کو وسائل کی قلت کا مسئلہ درپیش نہیں ہے، اصل مسئلہ مخلصانہ اورمربوط سوچ نیز علم اوراس کے عملی استعمال کے فقدان کا ہے۔ علم پر مبنی معیشت اورعلم و خیالات کی گہرائی کا کوئی متبادل نہیں ہے اوراس کے بغیر روایتی معنوں میں غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ قومی ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ ’’طرز حکمرانی کی غربت ‘‘ ہے جو کہ بد قسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح اورلیاقت علی خان کے انتقال کے بعد پاکستان کی تمام حکومتوں کا خاصہ رہی ہے۔انہوں نے کورس کے شرکاء کی جانب سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے مشن، وژن اورمقاصد کو سراہے جانے کا شکریہ ادا کیا جو وہ ۳۱ برس سے قومی سطح پر سماجی اورمعاشی مسائل کے حل کے لیے مکالمے اورپالیسی ریسرچ کے میدان میں انجام دے رہاہے اورحکومت اورعوام میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل نے مزیدکہا کہ پالیسی سازی کے عمل میں شریک افراد سرکاری اداروں اورتھنک ٹینکس کے باہمی روابط اورتعلق کے ساتھ بہتر پالیسی تجزیہ کرسکتے ہیں اور قابل عمل اوربہتر متبادلات پر مبنی سفارشات تیار کرسکتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ یہی کام تین عشروں سے کررہاہے۔انہوں نے متوجہ کیا کہ ملک کی مشکلات اورپریشانیاں ایک دوسری سے جڑی ہوئی ہیں اورانہیں حل کرنے کے لیے ہمیں ہمہ جہتی، مربوط اوربھرپور کوششیں کرناہوں گی جو گورننس، سیکیورٹی اورخارجہ پالیسی کی اصلاح سمیت دیگر تمام امور پر محیط ہونی چاہیں۔ ہماری تمام پریشانیوں اورمسائل کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے ذرائع و وسائل پر انحصار کریں۔ خود انحصاری ہمارے مسائل کے حل کے لیے شاہ کلید ہے۔
جواب دیں