دی لیونگ اسکرپٹس | مرزا حامد حسن (سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی)
آئی پی ایس کے زبانی تاریخ کے پروجیکٹ ’دی لیونگ اسکرپٹس‘ کا 29 واں اجلاس مرزا حامد حسن کے ساتھ 4 مارچ، 27 مئی اور 27 ستمبر 2022 کو تین نشستوں میں ہوا۔ مرزا حامد ایک سابق سول سرونٹ ہیں جنہوں نے وزارت پانی و بجلی، وزارت خزانہ، وزارت داخلہ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، اقتصادی امور ڈویژن، کابینہ سیکرٹریٹ، اور شماریات ڈویژن میں خدمات انجام دیں۔
اپنی ابتدائی تعلیم کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہبرطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1954 تک ہندوستان میں تعلیم حاصل کی اور پھران کے والدین ہجرت کر کےپاکستان آ گئے اور پشاور میں سکونت اختیار کر لی۔ اس طرح انہوں نے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم پشاور سے حاصل کی اور لاہور سے مائننگ انجینئرنگ میں گریجویشن مکمل کی۔
گریجویشن کے فوراً بعدانہوں نے واپڈا میں ملازمت کا آغاز کیا اور ساتھ ہی سنٹرل سپیریئر سروسز ( سی ایس ایس) کے امتحان کی تیاری شروع کر دی۔ تین سال کے بعد، وہ امتحان میں شامل ہوئے اور اسے پاس کر کےآڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے لیے منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے فنانس سروسز اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی اور 1970 میں تربیت مکمل کی۔ انہوں نے 1971 تک لاہور کے آڈٹ دفاتر میں اپنی ملٹری اٹیچمنٹ اور محکمانہ تربیت مکمل کی، جس کے بعد انہیں جنوری 1972 میں اسسٹنٹ کمپٹرولر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لیے پشاور میں تعینات کیا گیا۔
1977میں انہوں نے لندن میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ڈائریکٹر آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس خدمات انجام دیں جہاں انہیں چار سفیروں کے ساتھ خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب میں آڈیٹر جنرل آفس اور اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کے ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دیں۔ حاضرین کو اپنی خدمات سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں وزارت خزانہ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا جس کے بعد وہ 1985 میں راولپنڈی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بطور جوائنٹ سیکرٹری خدمات انجام دینے کے لیے منتخب ہوئے۔
انہوں نے اسی سال یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں ایڈوانسڈ مینجمنٹ ٹریننگ کورس میں شمولیت اختیار کی، جو خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے آفیسرز کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ 1988 میں انہیں اکنامک افیئرز ڈویژن میں تعینات کیا گیا۔ انہوں نے وہاں اپنی ڈیوٹی کے دوران ای اے ڈی کے مختلف ونگز بشمول اقتصادی رابطہ ونگ اور بینکوں کے ونگ میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نےای اے ڈی میں اقتصادی رابطہ کاری کے جوائنٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں جہاں انہیں غیر ملکی اقوام، بین الاقوامی تنظیموں، اسلامی ترقیاتی بینک(آئی ڈی بی) اور دیگر اداروں کے ساتھ کام کیا۔
انہوں نے مراکش میں آئی ڈی بی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں اپنی شرکت کو یادکرتے ہوئے کہا کہ جس امت کی آئی ڈی بی نمائندگی کرتا ہے، اس کے فائدے کے لیے اس میں کوئی موثر فیصلہ سازی نہیں تھی۔ اس کے بعد انہوں نےای اے ڈی میں بینکوں کے ونگ میں خدمات انجام دیں، جہاں انہیں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرنا تھا۔
1994میں، وہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے انتظامی امور میں تعینات ہوئے جہاں وہ دس ڈائریکٹوریٹ کے انچارج تھے۔انہوں نے 1996 میں وزارت داخلہ میں ایک سال کے لیے بطور جوائنٹ سیکرٹری شمولیت اختیار کی جس کے بعد 1997 میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بطور ایڈیشنل سیکرٹری تعینات ہوئے۔
انہیں اگست 2000 میں شماریات ڈویژن میں وفاقی سیکرٹری کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ پھر مئی 2001 میں وزارت پانی و بجلی میں بطوروفاقی سیکرٹری ان کی تعیناتی ہوئی، جو ریٹائرمنٹ سے قبل ان کی آخری پوسٹنگ بھی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے مختلف بین الاقوامی اداروں میں بطور کنسلٹنٹ کام کیا۔
حاضرین کے سامنےاپنے تجربات بیان کرتے ہوئے مرزا حامد نے معاشرے میں بدعنوانی کو ایک ایسی لعنت قرار دیا جسے جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملازمین میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ وہ کرپشن اور بے ایمانی کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر رابطے، نمائندگی اور سفارتی تعامل کے لیے انگریزی کی اہمیت کی نشاندہی کی۔ انہوں نے متنوع نقطۂ نظر کی سوچ کو عمل میں ڈھالنے کے لیے عملے کے تربیتی کورسز کو فیلڈ پریکٹیشنرز، کنسلٹنٹس اور مختلف شعبوں کے پیشہ وَر افراد کے ذریعے کروانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
جواب دیں