‘خلا سے پاکستان کے حالیہ سیلاب: ٹیکنالوجی کے تناظر میں’
موسمیاتی ماہرین کا قدرتی آفات کے انتظام میں جی گورننس کے استعمال پر زور
پاکستان کے پاس سیٹلائٹ ڈیٹا، تصویروں اور مقامی تحقیق تک اتنی رسائ موجود ہے کہ جس کے ذریعے سیلاب جیسی قدرتی آفات سے پہلے اور بعد کے انتظامات میں بے حد مدد لی جا سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق خراب حکمرانی، فنڈز کی کمی، اور متعلقہ اداروں اور فیصلہ سازوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اِسپیس یا خلائی ٹیکنالوجی کے وسائل سے ضرورت سے بہت کم استفادہ اٹھایا جاتا ہے۔
یہ مشاہدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے زیر اہتمام ’خلا سے پاکستان کے حالیہ سیلاب: ٹیکنالوجی کے تناظر میں‘ کے عنوان سے ایک گول میز اجلاس میں کیا گیا۔ سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں سیشن کے کلیدی سپیکر سائنسدان اور موسمیاتی ماہر ڈاکٹر ابرار الحسن اختر، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، ڈین پیر مہر علی شاہ ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی ڈاکٹر عبدالصبور، سابق وفاقی سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سیّد ابو احمد عاکف ، سینئر ریسرچ فیلو، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز ڈاکٹر کنور محمد جاوید اقبال، ، ڈاکٹر کامران اعظم، ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ سائنسز، یونیورسٹی آف ہری پور، اور ڈاکٹر محمد عرفان خان، ڈین انوائرمینٹل سائنسز، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ابرار الحسن کے مطابق پانچ سیٹلائٹس تک مفت رسائی کے باوجود جہاں بارشوں، سیلاب اور اس سے ہونے والے نقصانات، اور زمینی ڈیٹا اکٹھا کرنے کے تجزیے وغیرہ سے متعلق روزانہ خلائی اعدادوشمار کے ذریعے سیلاب کی مناسب نگرانی کی جا سکتی ہے، پاکستان میں بروقت فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔ اس سلسلے میں، زمینی ڈیٹا کی عدم موجودگی، جو کہ سیٹلائٹ اور زمینی ڈیٹا کے انضمام کے لیے ضروری ہے، پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نتیجتاً، فیصلہ سازوں کو بروقت معلومات نہیں دی جاتی ہیں، جس سے وقت میں وقفے اور معیار کے مسائل، اس کی دستیابی اور اشتراک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اسپیس ایپلی کیشن کو ‘آسمان میں آنکھ اور زمین پر قدم’ کے طور پر درجہ بندی کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جیو اسپیشل گورننس (جی گورننس) پاکستان کی ایک اہم ضرورت ہے جسے دونوں ڈیٹا کے بروقت انضمام سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے حکومت کی فیصلہ سازی میں معلومات کو شامل کرنے کے عنصر کی عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق پر مبنی اداروں کی طرف سے شیئر کی گئی معلومات کو زیادہ تر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
سید عاکف نے رائے دی کہ جب تک طرز حکمرانی کو تبدیل نہیں کیا جاتا، متعلقہ اداروں جیسے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، جن کے پاس وسائل، افرادی قوت، اور فنڈز کی بھی کمی ہے، ان میں جاننے اور کرنے کا فرق اور علم کو کارکردگی میں تبدیل کرنے کی نااہلی برقرار رہے گی۔
گورننس کے فقدان اور جاننے کے عمل کے فرق کی توثیق کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان خان نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اعداد و شمار کو صحیح طریقے سے استعمال کیے بغیر اور تحقیق اور پالیسی کے درمیان فرق کو ختم کیے بغیر قدرتی آفات کو مؤثر طریقے سے کم نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر کنور جاوید نے مستقبل میں لچک اور موافقت پیدا کرنے کے لیے مقامی وسائل اور دستیاب ڈیٹا کے استعمال پر زور دیا۔ انہوں نے مزید سفارش کی کہ ترقی یافتہ ممالک سے موسمیاتی فنڈنگ کا انتظار کرنے کے بجائے پاکستان کو صحیح طرز حکمرانی کے تحت اعداد و شمار اور تحقیق کو لاگو کرنے کے لیے مقامی طور پر اپنی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر کامران اعظم نے قوم کی ضرورت پر زور دیا کہ وہ لچکدار ڈھانچے اور طرز زندگی بنا کر موسمیاتی تبدیلیوں کے انتشار سے خود کو بچانے کے لیے مقامی وسائل اور طریقے تلاش کرے۔ اگرچہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے، جس کا محرک 15 سب سے زیادہ خوشحال ممالک ہیں، لیکن وہ برف کے پگھلنے جیسے مسائل کو نہیں روک سکتا۔ تاہم ابتدائی وارننگ سسٹم جیسے بروقت اقدامات اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے چیزوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
زراعت پر سیلاب کے مضمرات کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالصبور نے خبردار کیا کہ ملک کو خوراک اور غذائیت کی شدید عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مستقبل میں سیلاب جیسی آفات اور ان کے مضمرات کو روکنے کے لیے انہوں نے مناسب پالیسیاں بنانے اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی سفارش کی۔ اس سلسلے میں خلائی ٹیکنالوجی کو بر وقت وارننگ سسٹم تیار کرنے اور دریائے سندھ کے طاس نظام کے قدرتی نالوں کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں جیسا کہ 2022 اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس نومبر میں شیڈول ہے، پاکستان کوموسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی تباہی کے پیشِ نظر عالمی برادری سے موسمیاتی فنانسنگ اور بیرونی قرضوں کی معافی پر زور دینا چاہیے۔
مقررین کے خیالات کی تائید کرتے ہوئے خالد رحمٰن نے کہا کہ دستیاب ڈیٹا کا زیادہ سے زیادہ استعمال نہ ہونا افسوسناک اور ناقص گورننس کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان گورننس کی خامیوں کو دور کرکے اور قابل رسائی ڈیٹا کا تجزیہ کرکے قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
اختتامی کلمات میں حامد حسن نے نشاندہی کی کہ متعلقہ افراد اور ادارے تحقیقی ڈیٹا کی دستیابی سے لاعلم ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ ایک واضح خلاء ہے جسے پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور صوبائی حکومتوں کی کوتاہیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ وزارت صرف اور صرف ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میں بین الاقوامی امداد کے تعاون سے منسلک ہے اور صوبائی حکومتوں کے پاس اس بارے میں معلومات، صلاحیت، اور وسائل کی کمی ہے۔
سیشن کا اختتام اس پُر امید نوٹ پر ہوا کہ 2022 اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے اجلاس میں بین الاقوامی برادری کو یہ احساس ہو گا کہ کس طرح ترقی یافتہ ممالک کی پالیسیوں نے پاکستان کو شدید موسمیاتی آفت سے دوچار کیا ہے اور وہ ملک کو آفات کے بعد کے انتظام اور مستقبل کی لچک اور موافقت کی تعمیر کے لیے مناسب موسمیاتی فنڈ فراہم کریں گے۔
جواب دیں