’جبری مذہبی تبدیلی‘ایک بے بنیاد داستان ہے جو ریاست اور معاشرے کو بدنام کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے۔
جبری مذہبی تبدیلی ایک ایسی داستان ہے جس کی کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے لیکن اسے پاکستان، اس کے معاشرے اور ریاست کےتصور کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
جبری مذہبی تبدیلی ایک ایسی داستان ہے جس کی کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے لیکن اسے پاکستان، اس کے معاشرے اور ریاست کےتصور کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ ان تحقیق کار وں، سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کا نکتہ نظر تھا جو 12 ستمبر 2021 کو اسلام آباد میں جمع ہوئے تاکہ پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں مذہبی تبدیلی کی نوعیت کو جان پائیں ۔
ان میں بھرچنڈی شریف (گھوٹکی) کے میاں عبدالحق عرف میاں مٹھابھی موجود تھے جنہوں نےاس طرح کی مذہبی تبدیلیوں میں اپنے کردار اور کئی لوگوں کوجبری طور پر اسلام قبول کروانے پر لگنے والے الزامات کا جواب بھی دیا۔
ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئےمٹھا نے بتایاکہ لوگ دو صدیوں سے بھرچنڈی شریف آتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مشہور مسلمان اسکالر عبید اللہ سندھی نے یہاں اسلام قبول کیا تھا۔ نوآبادیاتی دور کے دوران، برطانوی حکمرانوں نے ایسے واقعات کی تحقیقات کی تھیں اور ان جیسی غیر معمولی جگہوں پر ہونے والی مذہبی تبدیلیوں کی سچائی کے قائل ہوگئے تھے۔ انہوں نےان مذہبی تبدیلیوں پر نظر رکھنے اور انہیں ریکارڈ کرنے کے لیے ایک فریم ورک بھی تیار کیا تھا۔انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہماری خانقاہ میں ایک بھی ایسا کیس نہیں ملے گا جہاں کسی کے مذہب کو تبدیل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا ہو۔ انہوں نے درخواست کی کہ لوگ خود اس جگہ کا دورہ کریں اور پاکستان کے خلاف الزام کو درست ثابت کرنے کے لیے حقائق کی تحقیقات کریں۔
میاں مٹھاکے بیٹے میاں اسلم، جو کہ خود ایک وکیل ہیں، نے کہا کہ کسی شخص کا مذہب زبردستی تبدیل کرنا اسلام کے خلاف ہے لیکن جب کوئی شخص رضاکارانہ طور پر اسلام قبول کر رہا ہو تو اس کے سرپرستوں اور معاشرے کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اس پر دباؤ ڈالیں، اسے گھیریں یا اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں۔ میاں مٹھا نے کہا، ”میں یقین دلاتا ہوں کہ میرے قائل کرنے پر کسی ایک شخص نے بھی اسلام قبول نہیں کیا، لیکن وہ لوگ جو اسلام اور اس کے سماجی و ثقافتی اصولوں سے متاثرہو جاتے ہیں وہ ہمارے پاس مذہب تبدیل کرنے اوراپنے خاندانی اورمذہبی بزرگوں کے رد عمل سےتحفظ کے لیے آتے ہیں“۔
اپنے خلاف مشہور تأثر کو مسترد کرتے ہوئے، مٹھا نے کہا کہ اس کے گھر اور زمینوں پر کئی ہندو کام کر رہے ہیں، اگر وہ زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر یقین رکھتے تو ان کے مذہب کو تبدیل کر تے لیکن ”وہ آزادانہ طور پر اپنے عقیدےپر عمل پیرا ہیں اور اس تحفظ سے بہرہ مند ہوتے ہیں جو ہم انہیں بطور مسلمان فراہم کرتے ہیں۔“
انہوں نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ ہر فرد، جوڑا، خاندان، یا گروہ جو ان سے مذہب تبدیل کرنے کے لیے رابطہ کرتا ہے اسے نہ صرف انتخاب کاآزادانہ ماحول دیا جاتا ہے بلکہ پاکستان ہندو کونسل کے رمیش کمار وانکوانی کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ہندو کمیونٹی کے مقامی سربراہ کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ان کے والدین سےایک ملاقات کر لیں۔ ”ایک دو واقعات میں لڑکیوں نے اپنے والدین کے پاس واپس جانا پسند کیا ہے اور ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ تاہم، ان لوگوں کے لیے جو اب بھی مذہب تبدیل کرنا چاہیں گے، ہمارے بازو کھلے ہیں اور ہم انہیں دائمی کامیابی کے اختیارسے انکار نہیں کرتے۔
رنکل کماری کے مشہور کیس کے حوالہ سے سوالات کے جواب میں میاں اسلم نے کہا کہ خاتون نے سول عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک ہر فورم پر مذہب کی تبدیلی کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا، اس کے باوجود اسے جیل بھیجا گیا اوراسےایک این جی او کے شیلٹر ہوم میں اس کی مرضی کے بغیرتین ماہ تک رکھا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ فریال شاہ (پہلے رنکل کماری) نے حال ہی میں عمرہ ادا کیا ہے، وہ ایک باعمل مسلمان ہے اور اپنے قرب وجوار کی لڑکیوں کودینی تعلیم بھی دیتی ہے۔
جو کچھ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اس کے برعکس، جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ اپنی برادری اور مقامی حکام کے ہاتھوں امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ حال ہی میں مذہب تبدیل کرنے والی دعا فاطمہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کے خاندان اور ہندو برادری نے اسے اسلام میں دلچسپی ظاہر کرنے پر شدید تشدد کا نشانہ بنایاجبکہ اس کے شوہر پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ وہ کئی دنوں تک ہسپتال میں رہا۔ تصویر کا یہ رُخ مکمل طور پر سیاہ ہے۔
میٹنگ میں موجودراؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کے علم میں یہ بات آئی کہ ایک ہندو خاتون کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ اسے قانونی مددفراہم کرنے کےلیے اسلام آباد سے سفر کرتے ہوئے اس کے پاس پہنچےلیکن خاتون نے انہیں بتایا کہ اس نے اپنی آزاد مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہےاور وہ میاں مٹھا اور ان کے خاندان کی طرف سے فراہم ہونے والی مدد اور تحفظ کے لیے شکر گزار ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) کے ایک تحقیق کار غلام حسین نے انکشاف کیا کہ انہوں نےشواہد کی تلاش میں ان این جی اوز کی رپورٹس کا مطالعہ کیا ہے جو پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلیوں کا الزام لگاتی ہیں لیکن انہیں کوئی ”قابل تصدیق ثبوت“ نہیں ملا۔ غلام حسین نے بتایا کہا انہوں نے اپنی تحقیق کے لیے وسیع پیمانے پر مطالعاتی دورہ کیاہےجس میں انہوں نے تقریباً 6000 مذہب تبدیل کرنے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے اور سو سے زیادہ ایسے لوگوں کے انٹرویو کیےہیں جو مختلف پس منظر کے حامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ڈیٹا کا تجزیہ کیا جا رہا ہے لیکن مجھے مذہب کی جبری تبدیلی کا ایک کیس بھی نہیں ملا۔
آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کہا کہ سچائی کو سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہےاور پھر یہ دنیا پر چھوڑ دینا چاہیےکہ وہ اسے دیکھے اور صرف بیان بازی پر نہ جائے۔ انہوں نے سول سوسائٹی کے اراکین پر زور دیا کہ وہ میاں مٹھا کی جانب سے علاقے کا دورہ کرنے اور ان واقعات کوخود پرکھنے کی پیشکش کوقبول کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی نے مذہب کی جبری تبدیلی کے کسی خاص معاملے کی نشاندہی نہیں کی تھی لیکن مذہبی تبدیلیوں کے خلاف ایک انتہائی متنازعہ بل تجویز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ قانون سازی حقائق پر مبنی نہیں ہے بلکہ جھوٹے پروپیگنڈے اور مقامی اور غیر ملکی عناصر کے دباؤ کے تحت کی گئی ہے۔
جواب دیں