توانائی کی بچت کا قانون: اطلاق پر عمل درآمد کا جائزہ

Energy Conservation Law thumb 1

توانائی کی بچت کا قانون: اطلاق پر عمل درآمد کا جائزہ

Energy Conservation Law2
 

26جنوری 2017ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں تونائی کے کارگراستعمال اور بچت کے ایکٹ 2016 پر منعقد ہونے والے سیمینار میں اس پر عمل درآمد کی حکمتِ عملی اور پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ حال ہی میں قائم کیے گئے NEECA (National Energy Efficiency & Conservation Authority) کے مینیجنگ ڈائریکٹر حسن ناصر جامی کی نمائندگی کرنے والے انجینئر اسد محمود نے اس پالیسی مباحثے میں بتایا کہ طویل انتظار کے بعد منظور ہونے والے اس  قانون پر عمل درامد کے لیے ایک مربوط قومی پالیسی وضع کی جا رہی ہے جس کے ڈرافٹ کو اگلے دو ہفتوں کے اندر  تمام اسٹیک ہولڈروں کو ان کی آراء جاننے کے لیے بھیج دیا جائے گا۔

اس قانون سازی کے نتیجے میں Pakistan Energy Efficiency & Conservation Board (PEECB) کا قیام عمل آیا ہے۔ اس بورڈ کے 23 ارکان میں وزارت پانی و بجلی کے وفاقی وزیر بطور چیئرمین اور وفاقی سیکرٹری وزارتِ پانی و بجلی بطور سیکرٹری اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ دیگر ارکان میں وزارت خزانہ، پٹرولیم و قدرتی وسائل، منصوبہ بندی، سائنس اور ٹیکنالوجی، صنعت، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور موسمیاتی تبدیلی کے سیکرٹری شامل ہوں گے۔ نامزد محکموں کے صوبائی سیکرٹریز، اوگرا اور نیپرا کے چیئرمین، NEECA کے ایم ڈی اور FPCCI کے نمائندے بھی ارکان میں شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ نجی شعبوں کے وہ پانچ افراد بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں گے جن کے اجتماع سے NEECA تشکیل پایا ہے۔ ان تمام افراد کی نمائندگی کا مقصد معیشت کے تمام شعبوں میں توانائی کے مؤثر استعمال کو یقینی بنا کر پائیدار ترقی کی منزل حاصل کرنا ہے تاکہ ضروری اداروں کی تشکیل اور تونائی کی ممکنہ بچت کا طریقہ کار وضع کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔

انجنیئر اسد محمود نے تسلیم کیا کہ یہ اتھارٹی اپنے تشکیل کے مراحل میں ہےاور اسے قانون پر عمل درآمد کے طریقہ کار اور اس کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کی تشکیل جیسے بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ مزکورہ پالیسی کے ڈرافٹ کو ابھی تمام فریقین کے ساتھ مشورے  کے مرحلے سے گزارنا ہے۔ تاہم انہوں نے انکشاف کیا کہ تمام صوبوں میں توانائی کے معیار کو پرکھنے والی لیبارٹریوں کے قیام ، پاکستان میں تیار ہونے والے پنکھوں اور دیگر برقی آلات کی کوالٹی لیبلنگ اور آلات کے تبدیلی کے پروگرام کی منصوبہ بندی جیسے کئی ذیلی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

اس گول میز سیمینار کی صدارت وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری اور COMSATS کے انرجی مینیجمنٹ پروگرام کے سرپرست اشفاق محمود نے کی۔ اس سیمینار میں جن توانائی کے ماہرین اور پالیسی ریسرچرز نے خطاب کیا ان میں ENERCON (NEECA کے پیشرو) کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر کے ایم زبیر، ایری زونا سٹیٹ یونیورسٹی (UET پشاور میں واقع کیمپس) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر احمد سہیل، پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (PWD) کے سابق ڈائریکٹر جنرل عطاء الحق اختر، سابق وفاقی سیکرٹری مسعودداہر، اسسٹنٹ پروفیسر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ڈاکٹر مسرت جبین اور آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن شامل تھے۔

احمد سہیل اور کچھ دوسرے شرکائے گفتگو نے طرزِ حکومت اور پبلک سیکٹر میں بجلی پیدا کرنے والی اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر زور دیا کیونکہ ان کے نزدیک ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کی ایک تہائی مقدار ضائع ہو جانے کے ذمہ دار یہی عناصر ہیں۔

اشفاق محمود نے اپنے اختتامی کلمات میں PEECB کے قیام پر تنقید کرتے ہوئے اسے قانون سازی کی تشکیل کو بیوروکریسی کے ہاتھوں میں کھیلنے سے تشبیہ دی۔ آلات کے متبادل پروگرام پر بھی اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی بیوروکریسی کا شکار ہو جائے گا اگر اس سارے عمل میں پرائیویٹ سیکٹر کو فعال طور پر شامل نہیں کیا جاتا اور جو صنعتیں اس میدان میں آگے آتی ہیں ان کے لیے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعے کسی کریڈٹ لائن کو سامنے نہیں لایا جاتا۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ NEECA ابتدائی مرحلے میں ہی طلب کی بجائے رسد کے معیار اور استعدادکار پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جو اس سے پہلے نظرانداز ہوتی رہی ہے۔

انہوں نے توانائی کی استعداد بڑھانے اور اس کے تحفظ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے صارفین اور صنعت کے لیے ترغیبات پیدا کرنے اور نجی شعبے کو منصوبے میں شریک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کےسروس مینیجرز کی مثال دی جن کے باعث صنعتیں اس قابل ہوئی ہیں کہ توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت ہو رہی ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے