ترکی کی سیاست۔ داخلی وخارجی پہلو
اسلام آباد (۱۵ ستمبر۲۰۱۱ء)
ترکی کے معروف اسکالر اورسیاست و بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسرڈاکٹرترکایاعطاو نے کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود دنیا میں فساد کا باعث ہے۔ اپنے دستور کے لحاظ سے یہ ایک نسلی ریاست ہے اورفلسطین کے اصل باشندوں کو ظالمانہ طریقے سے بے دخل کرکے استعماریت کے مفادات کے تحفظ کے لیے زبردستی بنائی گئی ریاست ہے۔
ان خیالات کا اظہارانہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں کیا۔ اس سیمینارکا عنوان تھا’’ترکی کی سیاست۔ داخلی وخارجی پہلو‘‘ اس سیمینار میں سابق سیکرٹری خارجہ اکرم ذکی اورآئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے بھی خطاب کیا۔ جناب تنویر احمد خان نے صدارت کی۔
ڈاکٹر ترکایاعطاو نے تاریخ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سلطنت عثمانیہ کے چار سوسال میں فلسطین میں یہودیوں، عیسائیوں اورمسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی اوراس لمبے عرصہ میں باہمی فساد اورخونی تصادم کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔
عربوں اورترکوں کے درمیان مغرب کی پیدا کردہ غلط فہمیاں دم توڑ چکی ہیں اوران کے درمیان محبت و الفت کا رشتہ ہمیشہ کی طرح آج بھی موجود ہے۔ اس بات کا ثبوت حال ہی میں ترک وزیراعظم طیب اردگان کا مصر میں پر جوش عوامی استقبال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی فلسطین کے حقوق کا احترام کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنا رویہ تبدیل کرناہوگا۔ دنیا میں اسرائیل کا سب سے بڑا دوست امریکہ ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی میں اسرائیل لابی کا زبردست کردار ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کی ریاست کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمیں نئے مشرقِ وسطیٰ کی ضرورت ہے جو بیرونی قوتوں کے اثر سے پاک ہو۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم صدیوں سے یورپ کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یورپی یونین معاشی غلبے کے لیے بنایا گیا کلب ہے۔ اس میں شمولیت ہمارا حق ہے۔ ہم اس حق سے دست بردار نہیں ہوں گے۔اقوامِ متحدہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا، جب تک وہ ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ نہ کردے۔ لیبیا پر حملہ کی قرارداد کی منظوری اقوامِ متحدہ کے اپنے منشور کی خلاف ورزی ہے۔
ترکی کے اندرونی سیاسی پہلو پر اظہار خیال کرتے ہوئے ترک اسکالر نے کہا کہ ترکی ایسا ملک ہے جس نے ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب کی بھی حفاظت کی ہے اور کسی اور تہذیب کے منفی اثرات کو اس میں شامل نہیں ہونے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ مصطفی کمال اتاترک بہترین جمہوری سوچ رکھنے والے ترکی کے پہلے صدر تھے۔ جمہوریت محض ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی موجودگی کا نام نہیں بلکہ ایک سے زائد نظریات کی موجودگی کا نام ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پہلو سے امریکہ میں بھی حقیقی جمہوریت نہیں ہے کیوں کہ وہاں دونوں پارٹیاں اندرونی اور بیرونی مسائل پر ایک ہی نقطۂ نظر رکھتی ہیں۔ترکی نے جدیدیت کو اپنایا ہے، مغربیت کو نہیں۔ کمال اتاترک کے دور کو روشن خیالی اور جدیدیت کا دور کہہ سکتے ہیں، اسے مغربیت نہیں کہا جاسکتا، اس فرق کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔
اس موقع پر پاکستان میں فلسطین کے سفیر جناب حازم حسین ابو شناب نے فلسطین کے بارے میں ترکی کے موقف کو سراہا اور یاد دلایا کہ مصر میں ترک وزیراعظم کے عظیم الشان استقبال کو ترکی کے بارے میں تمام عرب ممالک میں موجود ترکی کے لیے خیر سگالی کے عوامی احساسات کا ترجمان سمجھا جانا چاہیے۔
سابق سیکرٹری جنرل جناب اکرم ذکی نے کہا کہ ترکی کی پالیسی میں ماضی کے مقابلہ میں تھوڑی سی تبدیلی نظر آتی ہے تاہم ضرورت ہے کہ مکمل سیکولر ازم اپنانے کے بجائے، اسلامی اصولوں اورمبادیات کو احترام اوراہمیت دیتے ہوئے جدیدیت کی طرف بڑھنے کی حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ترکی نے مغرب پر انحصار ختم کرنے اور مشرق سے تعلقات بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
صدرمجلس کی حیثیت سے سابق سیکریٹری وزارتِ خارجہ جناب تنویر احمد خان نے کہا کہ ترکی نے ’’مشرق کی طر ف دیکھنے‘‘ کی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھا ہے۔ اپنی معیشت میں زبردست ترقی کی ہے اور اپنے تمام پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ کشیدگی اور ٹکراؤ کی پالیسی ختم کرکے دوستی کا رویہ اپنایا ہے جس کی سب تعریف کرتے ہیں۔
انہوں کہا کہ امریکی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مسلمانوں کے تیل پر قبضہ کرنے کی امریکی پالیسی اپنی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے اور چین کو ان وسائل سے دور رکھنے کے لیے ہے۔ ترکی نیٹو میں مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والا ملک ہے اس نے وہاں بھی اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے۔
آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سیمینار کا مقصد ترکی کے اندرونی اور بیرونی حالات کو براہِ راست سمجھنا ہے۔ اس سے ترکی اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات مضبوط ہوں گے۔
جواب دیں