‘ایران میں موجود بدامنی اور پاکستان اور خطّے پر اس کے اثرات’
ایران میں عدم استحکام جاری رہا تو اس کے اثرات خطے پر بھی ہونگے: ماہرین
ااگرچہ ایرانی حکومت کے ساتھ کچھ حقیقی مسائل موجود ہیں، لیکن میڈیا فریمنگ کے ذریعے منظم طریقے سے خطرات کا تاثر دے کر اس کی فالٹ لائنز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مقامی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر منظم طریقے سے بد امنی کو ہوا دی جارہی ہے۔
اس بات کا مشاہدہ 27 اکتوبر 2022 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقدہ ایک سیشن کے دوران کیا گیا، جس کا عنوان ’’ایران میں اندرونی کشیدگی اور پاکستان اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ تھا۔ اس نشست سے ایرانی امور کے ماہرین سابق سفیر آصف درانی اور ڈاکٹر نذیر حسین، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز اینڈ ہیومینٹیز، واہ یونیورسٹی کے علاوہ آئ پی ایس کے چئیرمین خالد رحمٰن، اور وائس چئیرمین سابق سفیر سید ابرار حسین نے خطاب کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ ایران میں سیاسی عدم استحکام اور بدامنی کا تسلسل پاکستان اور خطے پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ مزید برآں، مغربی دنیا، ایران کی بدامنی کو ایک اہم بحث بنا کر، پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اندرونی مسائل کے گرد گھومنے والی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ان مضمرات، استحصال اور میڈیا فریمنگ کو روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام مذہبی اور سیاسی عناصر کے درمیان اتحاد قائم ہو اور پولرائزیشن کم ہو۔
مقررین کا خیال تھا کہ بدامنی پھیلانے والے واقعات ایران کے لیے نئے نہیں ہیں لیکن بعض اوقات ہنگامہ آرائی کی بڑھتی ہوئی سطح مختلف عناصر کو اپنے چُھپے ہوئے ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہے جو کہ ایک بڑا خطرہ اور مسئلہ ہے۔ ایران میں موجودہ بدامنی اسی رجحان کی پیروی کرتی ہے جو ملکی اور بین الاقوامی ایجنڈا سمیت مختلف وجوہات کی بنا پر بہت سے عالمی کھلاڑیوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ایران کی صورتحال پر عوامی سیاسی رائے قائم کرنے میں اہم کردار مغربی میڈیا ادا کر رہا ہے۔ اگرچہ ایران میں مسائل موجود ہیں، لیکن میڈیا کی طرف سے میڈیا فریمنگ کو استعمال کرتے ہوئے اور خطرات کا تاثر دینے کے ذریعے اس کی تصویر کشی کرنا غلط ہے۔ یہ نہ صرف خلفشار کو تیز کر رہا ہے بلکہ ایران میں سیاسی تبدیلی لانے کے مطالبے کو بھی متحرک کر رہا ہے۔
مقررین نے نشاندہی کی کہ یہ غیر روایتی جنگ کا ایک حصہ ہے جس میں کسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے فالٹ لائنز کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ فالٹ لائنز کسی نظام میں موجود اندرونی تنازعات اور عوام کے درمیان اختلافات ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران اب تک سیاسی نظام میں تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ بدامنی سے بچنے کے لیے اپنی سیاسی فالٹ لائنز ، جیسے کہ لوگوں کے شدید اختلاف اور حکومتی خامیوں کو اچھی طرح سنبھال کر چل رہا ہے۔ تاہم، اعلیٰ مذہبی سیاسی قیادت کے تسلسل کے حوالے سے بڑے چیلنجز مستقبل میں ابھر سکتے ہیں، جو کہ ایک اور ایسی فالٹ لائن ہے جس پر دشمن کی نظر ہے۔
جواب دیں