ایران اور پاکستان کو خطّے میں امن کے لیے مشترکہ حمکتِ عملی اپنانی ہو گی؛ افغانستان میں طالبان کی حکومت میں شمولیت ناگزیر ہے: کمال خرازی
ایران کی کونسل برائے امور خارجہ کے سربراہ اور سابق وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال خرازی نے کہا ہے کہ یہ بات قابل تحسین ہے کہ پاکستان۳۴ ملکی اتحاد کی سربراہی کے باوجود یمن تنازعے میں فریق نہ بنا۔
وہ آج انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں "عالمی اور خطے کے ابھرتے منظرنامے کے بارے میں ایرانی نقطہ نظر” کے موضوع پر خطاب کررہے تھے۔ اجلاس کی صدارت سابق سیکرٹری خارجہ حکومت پاکستان شمشاد احمد خان نے کی۔
ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ بھارت اور ایران کا باہمی تعاون کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہوسکتا جس طرح پاکستان سعودی اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور ایران ثقافتی، مذہبی ، جغرافیائی اور تاریخی طور پر صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، پڑوسی ہیں ان کے مفادات اور روایات مشترک ہیں۔ ان تعلقات کو معاشی مفادات میں بدلنے کی ضرورت ہے جس سے علاقے میں ترقی کی رفتا ر تیز ہوجائے گی۔ دونوں ممالک کی پالیسی میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کی اہمیت نہیں ہے۔ ایران اور بھارت کے تعلقات کا پاک ایران تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر ملک اپنے مفادات کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ہمیں بھی اپنے اختلافات کو دور کرکے مشترکہ مفادا ت کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ چاہ بہار اور سی پیک کے آپس میں ملنے سے خطے میں بہت بڑی معاشی تبدیلی آئے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے بارے میں ہماری مفاہمت یہ ہے کہ اگلی حکومت میں اگر طالبان شامل ہوگئے تو امریکہ کے افغانستان میں قیام کا جواز ختم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور ایران کو مل کر کام کرنا چاہیے اور افغانستان میں امن کے قیام میں طالبان کی شرکت کی حمایت کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان اور ایرا ن افغانستان کے مسئلے میں سب سے زیادہ اور براہ راست متاثرہ ممالک ہیں۔ جبکہ امریکہ افغانستان میں اپنے قیام کو طول دینا چاہتا ہے کیونکہ افغانستان میں رہ کر وہ چین، پاکستان ، روس اور ایران پر نظر رکھ سکتا ہے۔
ایران اور امریکہ کی نیوکلیر ڈیل کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ وہ اس سے بھاگنا چاہتا ہے جبکہ ایران اس معاہدے پر قائم ہے۔ اس کے باوجود ہم دوسری صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ جبکہ یورپی ممالک امریکہ پر دباو ڈال رہے ہیں ایران امریکہ نیوکلیر ڈیل کو نہ توڑا جائے۔
ڈاکٹر کمال خرازی نے کہا کہ داعش کو ایرانی انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے بنایا گیا تھا مگر وہ اس مقصد میں ناکام رہی۔ داعش نے ۸۰ہزار فوج بھرتی کی ہے جس میں۵۰ہزار مختلف ممالک سے جنگجو لائے گئے ہیں۔ اگر عراق اور شام میں داعش کامیاب ہو جاتی تو دونوں ممالک کے حصے بخرے ہوجاتے اور اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوتا۔
شام کی موجودہ صورتحال اور بشارالاسد کی حکومت کی ایران کی جانب سے حمایت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری رپورٹ کے مطابق داعش کے ذریعے اسرائیل شام کو توڑ کر دو ملک بنانا چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ امت مسلمہ کے خلاف ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر طاقتیں اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ کیوں ہیں ۔ اگر ایسا ہو جائے گا تو اس کا براہ راست اثر ایران پر ہوگا۔ اس لیے ہم نے شام کی یکجہتی کے لیے بشارالاسد حکومت کی حمایت کی ہے۔ یہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم فلسطین، عراق، پاکستان میں سنیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا کہ پاکستان، ترکی ایران اور سعودی عرب مل کر مسلم امہ کو قیادت فراہم کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کا حقیقی مقام دلاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت میں ملٹری الائنس میں پاکستان کی شمولیت ایران کے خلاف نہیں ہے۔ اور پاکستان کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ۳۴ملکی اتحاد کے ذریعے ایران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔
مسلم ممالک کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت توانائی کے ۷۰فیصد اور قدرتی وسائل کا ۶۰ فیصد مسلم دنیا کے پاس ہے۔ لیکن یہ افسوس ناک بات ہے کہ پوری دنیا کے جی ڈی پی میں مسلم دنیا کا صرف ۵فیصد حصہ ہے۔ اقوام متحدہ اپنا مقام کھو چکاہے۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ آج افغانستان اور شام آگ میں جل رہے ہیں لیکن ہمیں اقوام متحدہ کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کو ترکی، ایران ، سعودی عرب اور پاکستان کے اتحاد کی صورت میں آگے بڑھ کر اپنے مسائل خود حل کرنے چاہییں۔
قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاک ایران تعلقات اور ڈاکٹر کمال خرازی سے دیرینہ تعلقات پر روشنی ڈالی اور ایرانی رہنماءوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور کہا کہ اس طرح کے پروگراموں سے ایرانی خارجہ پالیسی اور پاکستانی پالیسی سازوں کے درمیان مفاہمت میں اضافہ ہوگا۔ آج کی تقریب میں سابق سفراء اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور حکومت پاکستان کے سابق سیکرٹریوں اور پاکستان ایرانی سفیر مہدی ہنردوست سمیت ایرانی سفارتی اہل کاروں، میڈیا کے نمائندوں ، دانش وروں اور محققین اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔
جواب دیں