انضمام کے چار سال بعد قبائلی علاقوں کے حالات میں پیش رفت اور آگے کے لیے راہیں
بہتر طرزِ حکمرانی اور مقامی لوگوں کو بااختیار بنانے میں ہی قبائلی علاقوں کے مسائل کا حل ہے: گول میز
قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے انضمام کے بعد علاقے کے حل نہ ہونے والے مسائل کو ملک کے دیگر حصوں کو درپیش مسائل سے الگ تھلگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہر خطے میں ایک جیسے مسائل ہیں اور اس کا حل بہتر طرزِ حکمرانی میں ہے جس میں ایک مؤثر حکمتِ عملی کے ساتھ ہر ممکنہ اور قابل حصول کام کے لیے ان راستوں پر گامزن ہوا جائے جہاں ترقی منزل مقصود ہو۔ مزید برآں، انتظامی یونٹس کو چھوٹا کرنے کے لیے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بلدیاتی اداروں کو حقیقی طور پر بااختیار بنایا جائے اور شکایات کے ازالے کے لیے مستقل طور پر کام جاری رکھا جائےتاکہ گورننس اور ترقیاتی عمل میں ہر کسی کی شمولیت کو فروغ ملے۔
یہ وہ گفتگو تھی جو 4 اگست 2022 کو آئی پی ایس میں منعقدہ ایک گول میز اجلاس میں ہوئی جس کا عنوان تھا ’پاکستان ٹرائبل ایریاز: فور ایئرز آفٹر مرجر‘۔ اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی۔ دیگر شرکاء میں سیدنذیر، آئی پی ایس ایسوسی ایٹ؛ ایمبیسیڈر (ر) ایاز وزیر؛ فرحت اللہ بابر، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر؛ پیپلز پارٹی کےرہنما اخونزادہ چٹان؛ زاہد اللہ شنواری، سابق صدر سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری؛ ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر، پاکستان اسٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی؛ ڈاکٹر فرحت تاج، ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے؛ فاٹا کے امور پر مہارت رکھنے والے ڈاکٹر لطف الرحمٰن؛ عدنان شنواری، سابق صدر فاٹا یوتھ جرگہ؛ اور آئی پی ایس کےسینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک شامل تھے۔ سابق ڈائریکٹر فاٹا ریسرچ سنٹر ڈاکٹر اشرف علی نے اجلاس میں کلیدی مقرر کی حیثیت سے خطاب کیاجبکہ آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین نے افتتاحی کلمات کہے۔
اس گول میزاجلاس کامقصد قبائلی علاقوں کے حالات میں پیش رفت کا جائزہ لینا اورایسے عوامل پر ہونے والی بحث کے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کرنا تھاجو اس علاقےکے مستقبل کے بارے میں دو نمایاں نظریات کے گرد گھومتے ہیں ۔ مشاہدہ کیا گیا ہےکہ قبائلی علاقوں کی زمینی صورتِ حال کے مطابق وہاں ترقی کی سست رفتار لوگوں کی توقعات کو پورا نہیں کر پا رہی۔ یہ صورتِ حال ان لوگوں کے لیے بھی مایوسی کا باعث بنی ہے جو انضمام کی پرزور حمایت کر رہے تھے۔
انضمام کے بعد ہونے والی پیش رفت پر مقررین نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہاکہ اگرچہ کئی محاذوں پر اصلاحات نافذ کی گئی ہیں جن میں عدلیہ، سیاسی اداروں کی تعمیر، سماجی و اقتصادی ترقی، سیکورٹی، آئی ڈی پیز کی نقل مکانی، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر ِنو، اور زمین کی آباد کاری شامل ہیں۔ تاہم، سست رفتاری نے اصلاحات اور انضمام کی افادیت کو قابل بحث بنا دیا ہے۔ قبائلی علاقوں کا مرکزی دھارے کے ساتھ انضمام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ایک مضبوط سماجی و سیاسی ڈھانچہ قائم ہوجس پر ترجیحات طے کرتے ہوئے کاموں کوتیزی سے مکمل کرنے کا طریقۂ کار وضع کیا جائے۔
انضمام کی پیشرفت کے لیے بنیادی عمل فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز کا خاتمہ اور قبائلی علاقوں میں عدلیہ کی توسیع کاہے، جو کہ اس کمیونٹی کا دیرینہ مطالبہ بھی رہا ہے۔ اس سے لوگوں کو اپنے مسائل کے ازالے کے لیے ایک فورم اور پلیٹ فارم مہیا ہوا ہے۔
سیاسی اداروں کا قیام، مقامی حکومتی ڈھانچے کی تشکیل، نوجوانوں اور خواتین کی سیاسی شرکت، اور کے پی کی صوبائی اسمبلی میں قبائلی نمائندگی جیسے عوامل سیاسی محاذ پر ہونے والی کچھ پیش رفت ہیں۔ تاہم، مقامی گورننس کے ڈھانچے کو بااختیار بنانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فیصلہ سازی کے عمل میں لوگوں کی شرکت کے اثرات کو بڑھایا جا سکے۔ڈھانچہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہر مخصوص انتظام کے لیے چیزوں کو آگے لےکر جانے والی ٹیم میں ایمانداری اوراپنے کام میں سرگرمہونے کی صلاحیت بہت ضروری ہوتی ہے۔
سماجی و اقتصادی ترقی میں بھی پیش رفت دیکھی جا سکتی ہے، جیسا کہ سیاست اور معاشرے کے دیگر معاملات میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت، بینکوں کا قیام، دفاتر کا افتتاح، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اربوں کی مالیت کا 10 سالہ سماجی و اقتصادی ترقی کا منصوبہ۔ قبائلی علاقوں میں 10 سال تک سالانہ 100 ارب روپے خرچ کرنے کا اقتصادی منصوبہ سنگین خرابیوں کا شکار تھا ،اور اب بہتر طریقے سے عملدرآمد کرنے کے لیےاسےتین تین سالہ منصوبوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سیکورٹی کے محاذ پر، پولیس فورس کو باقاعدہ بنانے اورانہیں تربیت دینے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ صلاحیت کی تعمیر، ٹرانسفر اور تربیت میں موجود خلاء کے باوجود، انضمام سے پہلے کے دور کے مقابلے میں صورتحال بہتر ہے۔
تاہم، یہ دیکھا گیا کہ آئی ڈی پیز کی نقل مکانی کا اہم مسئلہ پوری طرح سے حل نہیں ہو رہا ہے جیسا کہ ہونا چاہیے تھا۔ قبائلی اضلاع میں سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بہت سے بحال شدہ آئی ڈی پیز واپس آچکے ہیں۔ ایک اور مسئلہ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار کی کمی ہے۔
دستاویزات سازی کایہی مسئلہ زمینی تنازعات سے متعلق بھی ہے۔ تاہم، زمین کی ملکیت کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ڈیٹا کو ڈیجیٹلائزیشن کرنےکی جانب کچھ پائلٹ مشقیں کی گئی ہیں۔
بحث میں ذکر کیاگیا کہ مسائل سے دوچار قبائلی علاقے ایک پیچیدہ عبوری دور سے گزر رہے ہیں۔وہاں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جو بذاتِ خود ایک بتدریج عمل ہے۔ تاہم، اس بتدریج عمل کو مؤثر اور اثر انگیز بنایا جانا چاہیے تاکہ ترقی کے ثمرات قبائلی عوام میں نچلی سطح تک پہنچاکراحساس محرومی اور مایوسی پر قابو پایا جا سکے۔
ایک اصلاح شدہ اور ترقی یافتہ قبائلی علاقے کے لیے، دونوں نقطۂ نظر کے حامیوں کا ہدف یہ ہی ہے کہ وسائل، صلاحیتوں، چیلنجز اور عوام کی توقعات کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ مقصد کو سامنے رکھا جائے تو قبائلی علاقوں کو متوازن انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ایک باہمی ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔
مزید برآں، قبائلی آبادی پر ذمہ داریاں عائد کرنے سے پہلےحکومت کو چاہیے کہ لوگوں کو حقوق کی فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات پرتوجہ دے۔نیز حکومت متعلقہ قوانین اورنئے اقدامات کے نفاذ کے طریقۂ کار کو نہ صرف فنڈز کے استعمال، فیصلہ سازی میں قبائلی آبادی کی شمولیت اور دیگر شکایات کے ازالے کے لیے استعمال کرے بلکہ قبائلی علاقے میں تجارت، وسائل کی دستیابی، بجلی کی پیداوار، سیاحت اور دیگر شعبوں کے علاوہ افرادی قوت کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور ان کے اندرچھپے ہنر کو آشکار کرنے پر بھی پھرپور توجہ دے۔ اس سے آبادی کا سماجی و اقتصادی معیار بلند ہوگا اور قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا عمل آگے بڑھ پائے گا۔
جواب دیں