’افغانستان سے امریکی انخلاء: موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز‘
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج خوف اور غیر یقینی کا خاتمہ ہے۔
مکمل امریکی انخلاء کے تناظر میں، افغانستان سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادکی ہجرت نے معمول کی زندگی کو سنگین خطرے سے دوچارکر دیا ہے ۔ ان پیدا ہو جانے والےحالات میں ہنر مند اور تعلیم یافتہ افغان غیر یقینی مستقبل کے خدشے کے باعث اپنے ملک کو مایوسی میں چھوڑ رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال طالبان کی جانب سے فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہےتاکہ عام افغانوں کی زندگیوں میں برپا موجودہ افراتفری پر قابو پا یاجا سکے۔
ان خیالات کا اظہار 2ستمبر 2021ءکو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد کے زیر اہتمام 02 ستمبر 2021 کومنعقد ہونے والی ایک گول میز کانفرنس میں کیا گیاجس کا عنوان تھا ’افغانستان سے امریکی انخلاء: موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز‘ ۔ کانفرنس میں ماہرین تعلیم، طلباء، دانشوروں، صحافیوں، پاک افغان یوتھ فورم اور آئی پی ایس کی ٹیم کے ارکان، اور افغان مندوبین نے شرکت کی جن میں سیاستدان، سابق افغان حکومت کے افسران اور افغان صحافی شامل تھے ۔
آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ آفیسر سید ندیم فرحت گیلانی نے سیشن کی نظامت کی جبکہ مقررین میں نیشنل پیس کونسل کے ڈپٹی چیئرمین مولوی عطاء الرحمان سلیم ، کابل کے سابق گورنر احمد اللہ علی زئی، سابق وزیر ٹرانسپورٹ حسنی مبارک عزیزی، صوبہ نورستان کے سابق گورنر جمال الدین بدر، آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، آئی پی ایس کے وائس چیئرمین، ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، اسٹریٹیجک امور کے ماہر بریگیڈیئر سید نذیر، مصنف اور افغان امور کے ماہر جمعہ خان صوفی، صحافی محمود جان بابر، نسٹ میں سینٹر آف انٹر نیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی کے سربراہ ڈاکٹر طغرل یامین، چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز پشاور ڈاکٹر محمد اقبال خلیلی، ڈائریکٹر سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ ریجنل سٹڈیز کے ہارون خطیبی اور ڈی جی پی اے وائے ایف سلمان جاوید شامل تھے۔
مقررین کا موقف تھا کہ طالبان ایک حقیقت ہیں،جسے قبول کرنا ہی افغانستان کی خوشحالی کی ضمانت ہے اور یہ ہی مستقبل کےحقیقت پسندانہ لائحہ عمل کو طے کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے، تمام سیاسی اور نسلی نمائندگی کرنے والے افغان دھڑوں کو ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ منظرنامے میں اقتدار کے خلاء نے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کو جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں ان افغانوں میں خوف اور خدشات پائے جاتے ہیں جو اپنے ملک میں امن اور استحکام چاہتے ہیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو جائیں اور ہنر مند مزدور روزگار کے مواقع تلاش کرسکیں۔
افغانستان کے موجودہ حالات کو انسانی بحران کے پہلو سے دیکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، وفد نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان مہاجرین کی مدد کے لیے آگے آئے جنہیں امداد اور بچاؤ کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان سے بھی درخواست کی کہ وہ اپنی سرحدیں کھولے تاکہ پھنسے ہوئے افغان مہاجرین کو اس مشکل وقت میں سنبھالا جا سکے۔
گول میز کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مضبوط ثقافتی، مذہبی، نسلی، علمی اور تاریخی تعلقات پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ مبصرین نے کہا کہ 90 فیصد افغان مذہبی علماء نے پاکستانی مدرسوں میں تعلیم حاصل کی اور بہت سے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں نے پاکستان میں قیام کے دوران مہاجرین کی حیثیت سے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔
مقررین نے اس غیر یقینی صورتحال پر دکھ کا اظہار کیا جوان افغان طالب علموں پر اثر انداز ہو رہی ہے جو امریکی انخلاء کے بعد اپنے تعلیمی مستقبل بارے مایوسی کا شکار ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے تعلیمی حلقوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں رہنے والے افغان طلباء کو بہتر تعلیم تک رسائی کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں۔ مقررین نے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے لوگوں کےدرمیان دو طرفہ رابطوں میں بھی بہتری آئے گی۔
علاقائی اور عالمی طاقتوں کی افغانستان میں مداخلت پر تبصرہ کرتے ہوئے، مبصرین نے کہا کہ اگر افغانستان میں سیاسی مداخلت اور پڑوسی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے افغان سرزمین کا استعمال بند نہ کیا گیا تو افغانستان اور خطے میں طویل مدتی امن اور استحکام ایک خواب رہے گا۔
کانفرنس کے اختتام پر ، خالد رحمٰن نے رائے دی کہ طالبان کو اپنی حکومت کو بہتر بنانے اور افغانستان کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے کچھ وقت دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے دشمنوں کو خبردار کیا جو افغانستان میں ریاستی امور کی افسوسناک تصویر پیش کرتے رہتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے دوطرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
جواب دیں