اسلامی قومیت اور ریاست کی ناکامی – افغانستان اور صومالیہ میں سماجی تحریکوں کا تقابلی جائزہ
اسی طرح امریکا کا مفاد اس میں ہےکہ پاکستان کا قبائلی علاقی خلفشار کا شکار رہےتا کہ وہ یہاں اپنی بالا دستی قائم کر کےیہاں کےمعدنی وسائل پر قبضہ اور علاقےپر کنٹرول حاصل کر سکے۔یہاںجب بھی باہمی سمجھوتےاور معاہدہ سےمعمولات کو ٹھیک کرنےکی کوشش کی گئی ،امریکا نےان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا ۔2004میں جنوبی وزیرستان ایجنسی میں پاکستان آرمی ،حکومت اور مقامی طالبان میںباہمی معاہدہ ہوا ۔طالبان کی طرف سےدستخط کر نےوالےنیک محمد کو 7 دن کےبعد امریکی طیارے سےحملہ کر کےہلاک کر دیا گیا۔اسی طرح 9اکتوبر 2006 کو جب تمام فریقین کی باہمی رضا مندی سےمعاہدہ ہونا تھا ،رات کےوقت اس علاقےمیںامریکہ نےڈرون حملہ کیا اور امن کوششوںکو درہم برہم کر دیا ۔اب بھی یہی ہوا ہے،ایک تازہ امن معاہدہ ہوتےہی دونوںطرف کےلوگوںکو بھڑکایا گیا اور ایک ماہ کےاندر تیس لاکھ سےزائد افراد اپنےہی ملک میںبےگھر بنا دیئےگئے۔
اس سےقبل شعبہ سیاسیات ‘میک گل یونیورسٹی ‘کینیڈا کی ریسرچ سکالر طالبہ عائشہ احمد نےاپنےتحقیقی مطالعےمیںصومالیہ میںاسلامی شرعی عدالتوں کےتجربات اور افغانستان میںطالبان کی قائم کردہ شرعی عدالتوں کےنظام کا تقابل پیش کیا۔ انہوںنےکہا کہ دونوںمقامات پر کچھ چیزیں قدرے یکساں نظر آتی ہیںاور حالات کےبہت سےپہلو غیر یکساںبھی ہیں۔اہم بات یہ ہےکہ دونوںجگہ مقامی مسلمان آبادی شرعی عدالتوںکےذریعےانصاف کا نظام قائم کرنا چاہتی ہے،یہ بھی حقیقت ہےکہ دونوںجگہ بیرونی طاقتوں نےمداخلت کی اور انصاف کےاس نظام کو ختم کر نےکی بھر پور کوششیںکی گئیں۔اپنےمفاد کےلئےمختلف گروپوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس مطالعےسےیہ بات بھی سامنےآتی ہےکہ بین الاقومی اثرات کےمقابلہ میںمقامی طور پر اسٹریٹ پاور زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
جواب دیں