آئی پی ایس کی اسٹڈی ’جبری تبدیلی‘ پرکراچی یونیورسٹی کے اجلاس ’مواد کی تجزیاتی تکنیکس‘ میں تبادلہ خیال
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے تعاون سے 27 مئی 2021ء کوایک آن لائن انٹرایکٹو سیشن منعقد کیا جس میں میڈیا ریسرچ کے طلباء نے حالیہ آئی پی ایس کی اسٹڈی ’جبری تبدیلی یا مذہبی تبدیلی:حقیقت اور قصے کہانیاں‘ کے طریقہ کار اور نتائج پرمحققین کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے تعاون سے 27 مئی 2021ء کوایک آن لائن انٹرایکٹو سیشن منعقد کیا جس میں میڈیا ریسرچ کے طلباء نے حالیہ آئی پی ایس کی اسٹڈی ’جبری تبدیلی یا مذہبی تبدیلی:حقیقت اور قصے کہانیاں‘ کے طریقہ کار اور نتائج پرمحققین کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔
آئی پی ایس ریسرچ آفیسراوراسٹڈی کے مصنف ڈاکٹرغلام حسین صوفی، سینئرریسرچ آفیسرآئی پی ایس سید ندیم فرحت نے میڈیا ریسرچ کے طلباء کے سوالات اور تبصروں کے جوابات دیے جبکہ اسسٹنٹ پروفیسرماس کمیونی کیشن ثمینہ قریشی نے سہولت کارکے فرائض ادا کیے۔
پاکستان میں نام نہاد جبری مذہب تبدیل کرنے کے افسانے پر بات کرتے ہوئے، صوفی غلام حسین نے کہا کہ اس طرح کی تبدیلی کے پیچھے شادی ہی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ اسلام مسلمانوں کو اپنے مذہب سے باہر بندھن باندھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ تبدیل ہونے والے فرد کے لیے مذہب کی تبدیلی رسم و رواج کی ایک ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے مختلف حقوق کی تنظیموں کی تقریباً تین درجن رپورٹوں کے مواد کا تجزیہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اکثر اوقات یہ رپورٹیں الزام لگانے کے لیے بطور ثبوت پیش کی جاتی ہیں کہ غیر مسلموں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کی منظم کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم ، انہوں نےاسٹڈی میں ثابت کیا ہےکہ ان رپورٹوں میں بنیادی یا عملی اعداد و شمار کا فقدان ہے۔
اسٹڈی کے دعوے کے مطابق، اس طرح کی رپورٹیں دیگر رپورٹوں کےچلتے پھرتے الفاظ پر انحصار کرتی ہیں جو بغیر کسی ثبوت کے تیار کی گئی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ رپورٹوں کی بنیاد اخباری اطلاعات اور سیاسی بیانات سے حاصل کردہ شواہد پر مبنی تھیں لیکن وہ اب بھی ’ فرضی متاثرین اور نام نہاد مجرموں‘ کی ان جبری تبدیلیوں کے قصوں میں آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتیں۔
تحقیق میں پتہ چلتا ہے کہ ان رپورٹوں میں کیے گئے دعوؤں کی تکرار ہے۔ غیر تصدیق شدہ اورغیر تصدیق شدہ ثانوی ذرائع کی بنیاد پر دلائل کوگھما پھرا کر پیش کیا گیا ہے۔
اس تحقیق میں ان مذہبی علما ، وکلا ، پولیس ، اور ریاست کے کارندوں کےخلاف بھی تحقیقات کی گئیں جن کا رپورٹ میں خصوصی تذکرہ ہے۔اس سے پتہ چلا کہ کس طرح ریاست ، معاشرے اور دین اسلام کو بدنام کرنے کے لیےسوشل میڈیا کاپلیٹ فارم استعمال کر کے ایک بیانیے کو تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں مزید یہ بھی پتہ چلا کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند گروہوں سے وابستہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس اس طرح کے الزامات کو پھیلانے میں کافی سرگرم ہیں۔
’یہ کہنا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو مذہبی علما مجبور کرتے ہیں اور ریاست اس انتہائی پیچیدہ صورت حال کا ادراک ہی نہیں کر پا رہی اور یہ کہ آزاد مرضی کی تبدیلی تو صرف خدائی الہام ہی کے سبب ہوتی ہے‘ ، اس اسٹڈی میں سول سوسائٹی کی تنظیموں اور ذمہ دار شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس طرح کے بیانیے کےحساس امور کو سمجھیں اور غلط انداز میں اسےآگے بڑھانے سے پرہیز کریں جو واضح جواز نہ ہونے کے باعث ملک اور مسلمانوں کے امیج کو داغداربنا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس سے پاکستان میں مظلوم طبقات کے حقیقی مسائل کو مجروح کیا جارہاہے۔
اجلاس کے اختتام پر ، ثمینہ قریشی نےاس حساس موضوع پر علمی گفتگوکا بندوبست کرنے اور میڈیا کے طلباء کو اس مسئلے کے دوسرے رخ سے آگاہ کرنے پر آئی پی ایس ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔
جواب دیں