آئین – اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی
پاکستان کا موجودہ دستور ۱۹۷۳ میں منظور ہوا۔ یہ اس اعتبار سے ایک غیر معمولی دستاویز ہے کہ اسے اس وقت کی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔
مصنف: پروفیسر خورشید احمد ایڈیٹر: خالد رحمٰن |
کتاب کا تعارف
پاکستان کا موجودہ دستور ۱۹۷۳ میں منظور ہوا۔ یہ اس اعتبار سے ایک غیر معمولی دستاویز ہے کہ اسے اس وقت کی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس کے بعد کی حکومتوں بالخصوص مارشل لاء کے مختلف ادوار کے نتیجہ میں اس میں بہت سی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی۔ لیکن بعد میں عوام کے منتخب اداروں یعنی پارلیمان نے اس کے بنیادی ڈھانچہ اور اس سے متعلقہ تفصیلات کو بحال کرنے اور محفوظ رکھنے میں بحیثیت مجموعی کامیابی حاصل کی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کا تعلق پاکستانی پارلیمنٹ کے ان اراکین میں سے ہے جنہوں نے آئین کے تقدس کو بحال رکھنے اور اس کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کے لیے مسلسل جہدوجہد کی ہے۔ انہوں نے ہر بے اعتدالی کا بر وقت نوٹس لے کر اس پر پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر بھی آواز اٹھائی ہے۔ اس ضمن میں ان کے لکھے گئے مضامین اور پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقاریر اس اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ کے اہم مواقع پر حکمرانوں کی بے اعتدالیوں کو بےنقاب کر تی ہیں اور ان بے اعتدالیوں کو ختم کرنے کےلیے ہونے والی کوششوں اور آئین پر اس کی صحیح اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کے لیے لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔
زیرنظر کتاب ’’آئین- اختیارات کا توازن اور طرزِ حکمرانی‘‘ ایسے ہی کچھ مضامین اور تقاریر کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ پروفیسر خورشید احمد کی ترجمان القرآن کے لیے لکھی گئی تحریروں پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ اسی طرح کے موضوعات پر ان کی سینیٹ میں کی گئی منتخب تقاریر پر مشتمل ہے۔ تمام تحریریں پاکستانی سیاست کے ایسے مستقل امراض سے متعلق ہیں جن میں وقت کے ساتھ کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یوں پاکستان کے سیاستدانوں اورپالیسی سازوں کے علاوہ پاکستانی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے محققین، اساتذہ اور طلبہ کے لیے اہمیت کی حامل ہیں ۔
پروفیسر خورشید احمد کی تقاریر اور مضامین پرمشتمل’ ارمغانِخورشید سیریز ‘کے عنوان سے آئی پی ایس پریس کی یہ پانچویں کتاب ہے۔ اس سیریز میں درج ذیل کتب بھی شامل ہیں:
– پاکستان کی نظریاتی اساس ،نفاذ شریعت اور مدینہ کی اسلامی ریاست
– دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلد اول]
– دہشت گردی کے خلاف جنگ،پاک امریکہ تعاون اور اس کے اثرات [جلد دوم]
– اسلام اور مغرب کی تہذیبی و سیاسی کشمکش
– پاکستانی معیشت کی صورتحال: مسائل ،اسباب اور لائحہ عمل
– آئین پاکستان: انحرافات اور بحالی کی جدوجہد
مصنّف کا تعارف
معروف مدبر و مفکر، سیاستدان، ماہرِ اقتصادیات، مصنف اورمحقق پروفیسر خورشید احمد (پیدائش: ۲۳مارچ۱۹۳۲، دہلی) کا شمار ان پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان اور اُمتِ مسلمہ کے وکیل کی شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا ایک بڑا تعارف جماعت اسلامی سے ان کی دیرینہ وابستگی ہے، تاہم وہ ایک ایسے دانشور اور رہنما ہیں جن سے فکری اور سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاص، علمیت اور حب الوطنی کے قائل ہیں۔
پروفیسرخورشیداحمد۱۹۸۵سے۲۰۱۲ تک ایک مختصر وقفہ کے علاوہ ۲۲ سال سینیٹ کے رکن اور۱۹۷۸ میں وزیر منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے ۔ ۱۹۷۹ میں آپ نے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی بنیاد رکھی اور ۲۰۲۱ تک اس کے چئیرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ بینالاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بنیادی ٹرسٹی، مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن،لیسٹر، برطانیہ ، یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز لاہور کے بورڈ آف گورنرز اور اسلامک فاؤنڈیشن ، برطانیہ کے چیئرمین بھیرہے ۔
پروفیسر خورشیداحمد نے اردو ، انگریزی میں سوسے زائد کتب تدوین و تصنیف کی ہیں ۔ آپ کی کتب اور مضامین کو عربی، فرانسیسی، ترکی، بنگالی، جاپانی، جرمن، انڈونیشین ، ہندی ، چینی ، کورین اور فارسی کے علاوہ دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کیا گیا ۔
پروفیسرخورشید احمد پر ملائشیاء ، ترکی اور جرمنی کی ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ۔ جبکہ ان کی تعلیمی و تحقیقی خدمات کے اعتراف میں ملایا یونیورسٹی ملائشیاء نے ۱۹۸۲میں تعلیم ،لغبرہ یونیورسٹی برطانیہ نے ۲۰۰۳ میں ادب اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائشیاء نے ۲۰۰۶ میں انہیں اسلامی معاشیات پر پی ایچ ڈی کی اعزازیاسناد عطا کی گئیں ۔
پروفیسر خورشید احمد کو معاشیات اسلام میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر اسلامی ترقیاتی بنک نے ۱۹۸۹ء میں اپنا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا جبکہ بینالاقوامی سطح پر اسلام کیلیے خدمات انجام دینے پر سعودی حکومت نے ۱۹۹۰ء میں انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ اسکے علاوہ حکومت پاکستان نے 2010ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعلیٰ شہری اعزاز ’’نشانِ امتیاز‘‘عطا کیا گیا ۔
جواب دیں