گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ | راونڈ ٹیبل: ‘پاکستان کا سیاسی نظام اور گورننس’
ملکی استحکام کے لیے سیاسی نظام اور طرزِحکمرانی میں سول ملٹری دوہرے پن کے خاتمہ ناگزیر ہے: ماہرین
پاکستان میں طرزِ حکمرانی میں کمزوریاں اور مسائل ملک کے طاقت کے ڈھانچے میں موجود دوہرے پن کا براہ راست نتیجہ ہیں، جسے ڈی جیورو اور ڈی فیکٹو الگ الگ انداز میں چلایا جاتا ہے۔ آئینی ذمہ داریوں کی عدم پاسداری اور سول اور ٰعسکری اداروں کے پیدا کردہ اس دوہرے پن نے جمہوری سیاسی نظام کا توازن بری طرح خراب کر دیا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اور اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (اپری) کے زیر اہتمام مشترکہ طور پر 20 اکتوبر 2022 کو منعقد کردہ ‘پاکستان کا سیاسی نظام اور گورننس’ کے عنوان سے ہونے والے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ میں سیاسی نظام کے اس پہلو پر ماہرین نے تبادلہ خیال کیا .
اس مکالمے کی صدارت چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان نے کی، جبکہ اس کی نظامت ڈاکٹر سید طاہر حجازی، سابق ممبر (گورننس)، پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے کی۔ مقررین میں بریگیڈیئر (ر) راشد ولی جنجوعہ، ڈائریکٹر ریسرچ، اپری، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب، سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین، سابق وفاقی سیکرٹری اور آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو سیّد ابو احمد عاکف، رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد آفتاب، ظہیرالدین ڈار، بانی، سینٹر فار انٹرنیشنل انٹرپرینیورشپ اینڈ ٹریڈ اور ماہر سیاسی اقتصاد، نذیر احمد مہر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، دی ریسرچ انیشیٹو، ڈاکٹر ریاض عنایت، ممبر نادرا، ڈاکٹر محمد سلیم، ماہرِ اقتصادیات اور سابق ممبر، مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی)، سابق وفاقی سیکرٹری اور آئی پی ایس میں سینئر فیلو مرزا حامد حسن، ، اور آئی پی ایس کے جی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ شامل تھے۔
احمد بلال کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نیم پارلیمانی نظام میں، جس میں صدارتی نظام کی بھی کچھ خصوصیات موجود ہیں، ریاست کے تینوں ستون اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو ، بشمول سیاسی ارادے کی کمی اور سیاسی نظام کے دوہرے پن کے، پاکستان کی آئینی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے نتیجے میں گورننس کا نظام کمزور ہوا ہے جو کہ گورننس کے اشاریوں، بشمول کرپشن پرسیپشن انڈیکس، جہاں پاکستان کا درجہ 180ممالک میں 140واں ہے، اور ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے قانون کی حکمرانی کے انڈیکس 2021 میں، جہاں پاکستان 139 میں سے 130 ویں نمبر پر ہے، میں پاکستان کی نچلی پوزیشن سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس مسئلےکے حل کے لیے کارکردگی کی پیمائش کے لیے معروضی معیار کے ساتھ آئینی فریم ورک کا ہونا ضروری ہے جبکہ سیاسی عمل میں فوج کے کردار کو آئینی اور جمہوری اقدار کے مطابق ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔
ابو احمد عاکف نے اشارہ کیا کہ ان دراڑوں کے علاوہ سیاسی طرز عمل اور نظام کے تنظیمی ڈھانچے میں موروثی خامیاں بھی ہیں، جس سے حکمرانی کے لیے بہت کم یا کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اشرافیہ کی گرفت سے لے کر انتخابی خامیوں اور افسر شاہی کے کردار تک کے نظام کی بے ضابطگیوں نے اصلاحات اور گورننس کی حکمت عملی کے لیے کسی بھی گنجائش کو ختم کر دیا ہے۔
اس موضوع پر غور کرتے ہوئے ڈاکٹر راشد آفتاب نے کہا کہ وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کے تین درجے والے گورننس کے ڈھانچے کے اندر ایک نمایاں رجحان یہ رہا ہے کہ صوبوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے وقت کی ضرورت کے مطابق اختیارات کی منتقلی نہیں کی گئ۔ اگرچہ یہ اٹھارویں ترمیم کے خلاف ہے، جس نے آرٹیکل 140 کی توثیق کی ہے، جس میں صوبائی حکومت کو اختیارات کی منتقلی کا پابند کیا گیا ہے، لیکن مقامی حکومتوں کے اداروں کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے شراکت پر مبنی گورننس کا نظام حاصل کیا جانا چاہیے۔
ظہیرالدین ڈار نے کاروبار کرنے میں آسانیوں کی طرف اشارہ دیتے ہوئے معاشی گورننس کے بارے میں اپنی بصیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ معیشت اس تنظیمی اور گورننس ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ ہے، لیکن کاروبار کرنے میں آسانی کا معاملہ بڑھتی ہوئی جنگوں، سیاسی عدم استحکام، اور ثقافتی اور بدعنوانی کے خطرات کو لے کے سرمایہ کاروں کی طرف سے زیادہ منافع کی توقعات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک اور عنصر کاروبار کی حکومتی ملکیت ہے، جسے مقرر نے اجارہ داریوں اور مخالفانہ قبضوں کی تخلیق کے راستے کے طور پر دیکھا۔ انہوں نے کامیاب معاشی گورننس اور فلاح و بہبود پر مبنی نظام کی تعمیر کے لیے پرائیویٹ سیکٹر پر توجہ مرکوز کرنے اور اسے آگے بڑھانے پر مزید زور دیا۔
سیشن کے دوران، ریسرچ انیشیٹو کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، نذیر احمد مہر نے پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے بارے میں بات کی اور کہا کہ 2018 کے انتخابات، جو کہ ایک بااختیار ای سی پی کے تحت کرائے گئے، میں ووٹر رجسٹریشن اور ٹرن آؤٹ میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
یہ نتائج الیکشن ترمیمی بل کی ترقی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جو 2020 سے پارلیمنٹ میں زیر التواء ہے، جس میں خواتین اور نوجوانوں کی شرکت کو متحرک کرنے کے لیے اختراعی طریقے تلاش کیے گئے ہیں، اور عوام میں اعتماد کے خسارے کو نشانہ بنانے والی انتخابی اصلاحات، انتخابات کی ساکھ، اور الیکشن کمیشن کی اسٹریٹیجک قیادت کا ذکر کیا گیا ہے۔ انتخابی اور دیگر اصلاحات کے لیے ای گورننس ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اس سے استفادہ حاصل نہ کیا گیا تو اس سے سائبر سیکیورٹی اور دیگر خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان ای جی ڈی آئی انڈیکس میں 193 میں سے 150 کی درجہ بندی میں تین درجے بہتر ہوا ہے، لیکن ٹیلی کام انفراسٹرکچر انڈیکس اور ہیومن کیپیٹل انڈیکس میں بہتری کے لیے ابھی بہت گنجائش باقی ہے، جس میں پاکستان درمیانے درجے پر کھڑا ہے۔ انہوں نے ایک جامع ڈیزائن کے ساتھ رکاوٹوں اور اہل کاروں اور عوام پر مبنی خدمات پر مبنی ایک مربوط ای گورننس فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان پہلوؤں کے پس منظر میں بریگیڈیئر (ر) راشد جنجوعہ نے فوجی موقف پر روشنی ڈالتے ہوئے تجویز پیش کی کہ ملک کو ایک ایسا ماڈل یا فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے جو سوشل کنٹریکٹ ماڈل پر مبنی عوامی، سول اور فوجی ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ انہوں نے سول ملٹری تعلقات کو از سر نو سوچنے کی بھی سفارش کی۔
سیشن کے اختتام پر خالد رحمٰن نے مسائل کو بروقت پہچاننے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ مسائل کو تسلیم کر لینے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ عالمی اشاریہ جات عمومی اشارے فراہم کرتے ہیں، لیکن پاکستان کو ترقی کے لیے مقامی درجہ بندی کے نظام اور کارکردگی کو جانچنے کے طریقے اپنانا چاہیے۔ سیاسی اور گورننس کی بہتری کے لیے شہریوں کی تربیت، قدر پر مبنی فریم ورک کی مضبوطی، بحرانی حالات میں موقع تلاش کرنے کا طریقہ، اور مقامی حکومت کو بااختیار بنانا موثر حل کے طور پر کام کرسکتا ہے۔
جواب دیں