‘کوویڈ- ۱۹ کا معاشرتی وسیاسی انجام کار: ایک تجزیہ’

‘کوویڈ- ۱۹ کا معاشرتی وسیاسی انجام کار: ایک تجزیہ’

آج جدید دنیا کے بہت سارےمثالی افکار اور نظریات کوویڈ-۱۹ وبائی بیماری کے نتیجے میں خطرے سے دوچار ہیں ۔

 Socio-Political-Repercussions-of-Covid-19-An-Analysis

آج جدید دنیا کے بہت سارےمثالی افکار اور نظریات کوویڈ-۱۹ وبائی بیماری کے نتیجے میں خطرے سے دوچار ہیں ۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری جیسا انتہائی قابل عمل نظام  بھی خطرے کی زد میں ہیں جس کو عصر حاضر کی ترقی سے لے کر جمہوریت تک ہر چیز کے پیچھے ایک تحریک دینے والی قوت کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن  لگتا ہے کہ یہ بھی اب نوول کورونا وائرس کے  پھیلاؤ کے نتیجے میں ناکام ہو رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں مقیم سینئر صحافی مرتضیٰ شبلی نےایک ویبینار میں کیا جس کا عنوان تھا  ‘کوویڈ- ۱۹ کا معاشرتی وسیاسی انجام کار: ایک تجزیہ ‘ ۔ یہ اجلاس آئی پی ایس کی ویبینار سیریز ‘کوویڈ ۔۱۹: عالمی چیلنج،  قومی ردعمل’ کے ایک حصے کے طور پر ۱۶ اپریل ۲۰۲۰ ءکو منعقد ہوا۔ اس سیشن کی صدارت سینئر تجزیہ کار اور آئی پی ایس کے ساتھی سید محمد علی نے کی ۔ مباحثہ کے پینل میں ایگزیکٹو صدر آ ئی پی ایس خالد رحمان ، جنرل مینیجر آپریشن آئی پی ایس  نوفل شاہ رخ اور انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچ فیکلٹی کے ارکان شامل تھے۔

کورونا وائرس پھیلنے کےباعث مختلف سماجی و سیاسی دباؤ کا تجزیہ کرتے ہوئے شبلی نے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق ہر چیز- بشمول بینکاری کی صنعت ، ہوا بازی کی صنعت، سیاحت کی صنعت،  اشیاء کی فراہمی میں تسلسل کا نظام وغیرہ – کوویڈ- ۱۹ کے بعد کی دنیا میں ناکام ہو رہی ہے۔ جبکہ اب انہیں مدد ملنے کی  واحدامید سوشلسٹ ماڈل  سے ہے  جہاں حکومت    بچانے کے لیے  ضمانت  دینے کے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نطام  جسے طویل عرصہ سے دنیا کو چلانے کے لیے بہترین طریقہ کار اور عالمی مسائل سے نبٹنے کابہترین حل  بتایا جاتا تھا، آج  گھٹنوں پر ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نظام ، اس کا نظریہ ، اس کا طریقہ کار  اور اس کا سارا ڈھانچہ کتنا نازک تھا۔

تیزی سے نئی شکل اختیار کرتے  بین الاقوامی منظرنامے پر بات کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آج کی دنیا  پھر سے بے یقینی کی نئی کیفیت کی  طرف گامزن ہے۔ یورو بلاک جو ماضی  قریب میں علاقائیت کے سیاسی نظام میں سب سے نمایاں کامیابی کی کہانی کے طور پر دیکھا جاتا تھا ، موجودہ بحران میں بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ جبکہ امریکہ سے لے کر یورپ تک مغربی ممالک کے مقامی ردعمل نے  سرمایہ دارانہ نظام کو بے نقاب کردیا ہے کیونکہ ان میں سے کسی کے پاس بھی وبائی مرض سے  نمٹنے کے لیے کوئی طاقتور طریقہ کار نہیں تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ماضی میں بھی مغرب کو کچھ وبائی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے  لیکن ان سے نبٹتے وقت بھی ان کی توجہ منافع بخش پیداوار پر مرکوز رہی۔  ان ممالک میں دفاعی صنعت حد سے زیادہ ترقی کرچکی ہے لیکن صحت کی صنعت  اور دوا سازی کی صنعت نے واضح وجوہات کی بناء پر توجہ حاصل نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں  آج ہم دیکھتے ہیں کہ پورے مغرب میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح سے بے نقاب ہوچکا ہے۔

کوویڈ- ۱۹ پر رپورٹنگ کے حوالے سے عالمی اور پاکستانی میڈیا کے کردار پر بات کرتے ہوئے شبلی نے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا اس بحران سے نمٹنے میں  زیادہ ذمہ دار اور ذی شعور رہا ہے۔ کاروبار کے بگڑتے ہوئے حالات کا سامنا کرنے کے باوجود  اس نے متعلقہ فیلڈکے ماہرین کے ساتھ باخبر اور تعمیری بات چیت کرکے انارکی کوپھیلنے سے روکنے میں اپنی حکومتوں کی پوری مدد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف   پاکستانی میڈیا کا کردار بعض اوقات متضاد اور حقائق چھپانے والا تھا۔ قوم پر ابتلا کی اس گھڑی میں جب مفاہمت کا نقطہ نظر اپنا کر لوگوں کو ایک ساتھ باندھنے میں  اس کے بااثر کردارکی ضرورت تھی، وہ اس ذمہ دارانہ کردار کو ادا کرنے کی بجائے  ایک الگ تھلگ عنصر کا کردار ادا کرتا ہوا غیر یقینی کی صورت حال اور اضطراب کو فروغ دیتے دیکھا گیا۔

پروگرام میں شامل دانشوروں   نےپاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں تربیت کے ذریعہ خاطر خواہ اصلاحات لانے کو ضروری سمجھتے ہوئے   تجویز پیش کی کہ ایسے  صحافیوں کو منظرعام پر لایا جانا ضروری ہے جو ہنگامی حالات کی پیچیدگیوں کو جانتے ہیں اور صحت یا معاشی بحران کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مداخلتوں کو دیکھا جانا چاہیے جو ایسے مواقع پر کی جا رہی ہوتی ہیں۔

علی نے شبلی کے نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے حالات میں میڈیا کا کردار حکمت عملی سے  متعین کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے قومی اطلاعات اور معلومات کے میدان عمل  میں رہنما اصول تیار کرنے اور بہترین طریق کار اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات کو مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے صحت سے متعلق مختلف محکموں کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے تاکہ مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے صحیح معلومات فراہم کی جاسکیں۔

اجلاس کے اختتام پر  علی نے خوف کے موجودہ ماحول پر اپنے خدشات کا اظہار کیا جس نے پوری دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وبائی خوف کے باعث دنیا بھر میں  لوگوں کےطرز عمل میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آرہی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ایک مونو کلچر تیار ہو گیا ہے جس میں ہم ایک خول میں محدود ہو گئے ہیں۔  یہ ایک ایسا خول ہے جس میں ہم اپنی سرگرمیاں اور لین دین   جیسے زندگی کے معاملات کا انحصار  ٹیکنالوجی پر لے آئے ہیں ۔ ایسا کرنے سے  ہم اپنی زندگیوں پر قابو رکھنے، یہاں تک کہ اپنی ذاتی خودمختاری ترک کرنے کا خطرہ مول سکتے ہیں ۔ہم  اپنی زندگی ایک ایسی دنیا میں گزارنے کی سمت جا  سکتے ہیں  جہاں ہمیں ہر جگہ تلاش کر لیا جائے گا اورہم جو  کچھ بھی کرتے ہیں وہ ریکارڈ ہوجائے گا۔ جتنی جلدی ممکن ہو خوف کے موجودہ رجحان سے باہر آنا  ضروری ہے اور اس سلسلے میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے