‘چوتھا صنعتی انقلاب اور پاکستان کےلیے مضمرات’

fourth industrial thumb

‘چوتھا صنعتی انقلاب اور پاکستان کےلیے مضمرات’

Fourth industrial 21dec

 پاکستان میں گورننس اور پالیسی سازی کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نتیجے میں آنے والے صنعتی انقلاب کے لیے تیار رہنا ہو گا، سیمینار

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں آنے والے صنعتی انقلاب اور اسکے مختلف سماجی و سیاسی پہلووّں اور پالیسی سازی پر مرتب ہونے والے اثرات کاجائزہ لیتے ہوےَ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ہونے والے سیمینار میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ہم اس نئے دور کے تقاضوں کا سامنا کر سکیں گے اور کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس  صنعتی انقلاب کے پیشِ نظر چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں؟

’چوتھا صنعتی انقلاب اور پاکستان کے لیے مضمرات‘ کے عنوان سے 22 دسمبر، 2017 کو منعقد ہونے والے اس سیمینار کی صدارت سابق وفاقی سیکریٹری بجلی و پانی اور انسٹی ٹیوٹ کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر مرزا حامد حسن نے کی جبکہ مرکزی مقرر سی بی آئی کے ماہرظہیر الدین ڈار تھے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن نے بھی اس موقع پر اظہارِ خیال کیا۔

یہاں یہ واضح رہے کے چوتھا صنعتی انقلاب مصنوعی ذہانت [آرٹیفیشل انٹیلی جینس] پر مبنی ٹیکنالوجی کے ایک نئے دور کا نام ہے جو طبعی، حیاتیاتی اور ڈیجیٹل دنیاوَں کے امتزاج سے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور سماجی طرزِ ہائے زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

انڈسٹری 4.0 سے متعلق مستقبل کی چند جھلکیاں پیش کرتے ہوےَ ظہیر الدین ڈار نے انکشاف کیا کہ ایک اندازے کے مطابق 2030 ء میں آج کے دور میں پائی جانے والی بیشتر سرگرمیاں مصنوعی ذہانت رکھنے والی مشینیں سر انجام دے رہی ہوں گی اور انسانوں کے لیے روز گار کے حصول اور بیشتر پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے تقاضے ایک بالکل مختلف صورت اختیار کر چکے ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستانی بحیثیت قوم ابھی تک صنعتی انقلاب کے دوسرے عہد میں زندگی گزار رہے ہیں اور بظاہر جدید دور کے نئے تقاضوں کا ادراک نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بڑا چیلنج حکومتی، قانون ساز اور پالیسی ساز اداروں کو بھی درپیش ہے جو خود بھی مصنوعی ذہانت کے اس نئے دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرتے نظر نہیں آتے۔

ڈار نے ملک کے تعلیمی اداروں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوےَ کہا کہ یہ نئی نسل کو نہ تو آنے والے دور کی ضروریات سے لیس کر رہے ہیں اور نہ ہی مقامی صنعت کی ضروریات کے مطابق تیار کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جرمنی، فن لینڈ اور نیدر لینڈ جیسے مستقبل پر نظر رکھنے والے یورپین ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک نئے دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کلاس روم اور تعلیمی نصاب کے بغیر تعلیمی نظام پر تجربات کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں تعلیمی سوچ  ہنر سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے بجاےَ زیادہ نمبر حاصل کرنے کی حد تک محدود ہے۔

اس موقع پر مرزا حامد حسن نے خطاب کرتے ہوےَ کہا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی ہمارے طرزِ زندگی کو تیز رفتاری سے تبدیل کر رہی ہے اور اسکے اثرات ہمارے گردو نواح میں واضح طور پرنظر آ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا انضمام حقیقی اور ڈیجیٹل طرزِ زندگی کے بیچ موجود لکیروں کو دھندلا کر رہا ہے جس کا اثر انفرادی و اجتماعی زندگیوں سے لے کر ہمارے کاروبار، معاشرے، تعلیمی، دفاعی، حکومتی اور پالیسی ساز اداروں غرض یہ کہ سب پر پڑے گا۔

 ہمیں اپنی افرادی قوت اور نظام کو ان جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی شدید ضرورت ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کتنا جلد مستقبل قریب میں پیش آنے والی ان ضروریات کا ادراک کرکے ان کو بحالتِ مجبوری اپنانے کے بجاےَ آگے بڑھ کر ان کو گلے لگانے کی سوچ اپناتے ہیں اور اس سے استفادہ حاصل کرنے کا لائحہ عمل تیار کر پاتے ہیں۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے