وائس ایڈمرل (ر) افتخار راؤ کی کتاب ساحلی آبادیوں کو میری ٹائم سیکورٹی میں اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر اجاگر کرتی ہے: تقریب رونمائی سے مقررین کا خطاب
مقامی آبادیاں بطور اسٹیک ہولڈرز کسی قومی پالیسی کی کامیابی کے لیے ایک لازمی عنصر ہیں کیونکہ اگر انہیں ملکیت دی جائے اور مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ قومی ہم آہنگی اور معاشی نمو میں کردار ادا کرتی ہیں ۔ یہ بات ساحلی کمیونیٹیز پر پورا اترتی ہے اور اسی پہلو کو تسلیم کرتے ہوئے، پاک بحریہ حفاظتی حکمت عملی میں انسان کے اس اہمیت کو بھرپور سمجھتی ہے اور اس کا ثبوت ملک کے ساحل پر قائم مختلف ترقیاتی منصوبوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔
مقامی آبادیاں بطور اسٹیک ہولڈرز کسی قومی پالیسی کی کامیابی کے لیے ایک لازمی عنصر ہیں کیونکہ اگر انہیں ملکیت دی جائے اور مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ قومی ہم آہنگی اور معاشی نمو میں کردار ادا کرتی ہیں ۔ یہ بات ساحلی کمیونیٹیز پر پورا اترتی ہے اور اسی پہلو کو تسلیم کرتے ہوئے، پاک بحریہ حفاظتی حکمت عملی میں انسان کے اس اہمیت کو بھرپور سمجھتی ہے اور اس کا ثبوت ملک کے ساحل پر قائم مختلف ترقیاتی منصوبوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔
اس بات کو مقررین نے’ گواتر بے ٹو سر کریک: دی گولڈن کوسٹ آف پاکستان – ہسٹری اینڈ میموئرز’ کے عنوان سے شائع شدہ کتاب کی تقریب رونمائی میں اجاگر کیا۔ یہ کتاب وائس ایڈمرل افتخار احمد راؤ (ر) کی تصنیف کردہ ہے اوراسے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی کے اشاعتی ادارے آئی پی ایس پریس نے شائع کیا ہے۔
اس تقریب کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ( آئی پی ایس) اورنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز (این آئی ایم اے) نے مشترکہ طور پر 3 فروری 2022 کو کیا تھا۔اجلاس کی صدارت سابق چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل محمد آصف سندیلہ (ر) نے کی جبکہ شریک صدارت انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین خالد رحمٰن تھے۔ پارلیمانی سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی ترقی اور خصوصی اقدامات، کنول شوزاب نے مہمان خصوصی کی حیثیت میں شرکت کی۔دیگر معزز مہمانوں میں ایڈمرل محمد ذکاء اللہ (ر) سابق چیف آف نیول سٹاف، لیفٹیننٹ جنرل طاہر محمود قاضی (ر) اور وائس ایڈمرل عبدالعلیم (ر) ڈائریکٹر جنرل نیما (این آئی ایم اے) شامل تھے۔ تقریب سے ایمبیسیڈر(ر) خالد محمود، چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز، اسلام آباد؛ عمارہ درانی، اسسٹنٹ ریذیڈنٹ نمائندہ، چیف ڈویلپمنٹ پالیسی یونٹ، یو این ڈی پی اور ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس نے بھی خطاب کیا۔
شرکاء کا خیال تھا کہ یہ کتاب پاکستان کی ساحلی پٹی کے ان دیکھے مناظر سے متعلق بصیرت افروز فہم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی وہ صلاحیت نمایاں کرتی ہے جو خطے کی سیاست اور معاشیات کے لیے اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ قومی سلامتی کے لیے نہ صرف ساحل کے ساتھ بلکہ پورے ملک میں مقامی آبادی کو شامل کرنا اور انہیں بااختیار بنانا ضروری ہے۔ اس کتاب میں متعدد نکات بیان کیے گئے ہیں کہ ایسا کیسے کیا جائے۔ یہ دیکھا گیا ہےکہ پالیسی سازی کوئی میکانکی عمل نہیں ہے اور اسے تاریخ اور پس منظر سے الگ تھلگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت شامل ہونی چاہیے جیسا کہ کتاب میں بیان کیے گئے مختلف واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔
اس تناظر میں مقررین نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں موجودہ منفی بیانیے کے درمیان یہ کتاب کامیابی کی ایک کہانی بیان کرتی ہے کہ کس طرح حکومتوں نے گوادر کو عمان کے ہاتھوں سے لے کر پاکستان کے حوالے کرنے تک تسلسل سے کام کیاجو بالآخر 1958 میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
ساحلی پٹی کے ساتھ بھرپور تجربات بیان کرتے ہوئے، وائس ایڈمرل راؤ نے اپنی کتاب میں سے کئی کہانیاں بیان کیں جن میں ترقی کے بہت سے کاموں میں وہ مرکزی نوعیت کا کردار ادا کر رہے تھے ۔اس سلسلے میں ایک خصوصی کردار سر کریک کے علاقے میں ماہی گیروں کے مسائل کو حل کرنے کا تھا، جس میں خصوصی طور پر قابلِ ذکر میرینز کینال کی کھدائی تھا جس کی بدولت ماہی گیروں کو حفاظت کے ساتھ شکارکرنے کے مواقع میّسر آئے۔
سابق ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف (آپریشنز) نے بحری امور سے متعلق ملک میں موجود بے بصیرت سوچ پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی تعریف کی کہ مختلف تحقیقی اور علمی اداروں کی جانب سے اٹھائے گئے مختلف اقدامات کے ذریعے آہستہ آہستہ اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پیدا ہونے لگی ہے۔
ایڈمرل سندیلا نے اعتراف کیا کہ وہ کتاب پڑھ کر بہت سے تاریخی حقائق سے آگاہ ہوئے۔ انہوں نے کتاب میں دیے گئے حوالوں کے معیار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام ساحلی پٹی کے لیے ایک وژن بھی پیش کرتا ہے جو آگے بڑھنے والے ملک کے لیے بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
خالد رحمٰن نے ڈیجیٹل دور میں اس طرح کے جامع کام کی اہمیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہتحقیق اور پالیسی کے میدانوں میں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتہائی تجربہ کار اور نامورپالیسی پریکٹیشنرز اور اہم رائے دہندگان بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعریف کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ماحول میں، ٹھوس اور پائیدار پالیسی سازی ان رپورٹوں اور کتابوں پر مبنی ہونی چاہیے جو حقائق پر مبنی ہوں اور تحقیق کے کام ہوں۔ کنول شوزاب نے کتاب کو مصنف کے بحری امور سے متعلق چالیس سال کے تجربے کا عکاس قرار دیا، جو خطے کے بصیرت انگیز جغرافیائی، اقتصادی، سماجی اور ترقیاتی منظر نامے کوپیش کرتی ہے۔ انہوں نے مصنف کے اس متاثر کن کام کوسراہتے ہوئےکہا کہ یہ بہت ہی آسان زبان میں لکھی گئی ہے، اس طرح اسے پڑھنا ماہرین اور اس علم میں نوواردوں کے لیے آسان ہو گیا ہے۔
عمارہ درانی نے اس کتاب کو ایک وسیع علمیت کا کام قرار دیا جس میں سماجی علوم کے متعدد ایسے مضامین کو اکٹھا کیا گیا ہے جو پبلک پالیسی وضع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت علاقائی تفاوت سے بخوبی آگاہ ہے اور اس نے علاقائی مساوات کو پالیسی سازی میں ایک اہم بنیاد قرار دے رکھا ہے۔ اس تناظر میں یہ کتاب ترقیاتی پالیسی سازوں، سفارت کاروں اور ساحلی علاقوں میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں تجارتی اسٹیک ہولڈرز کو لازماً پڑھنی چاہیے۔
ایمبیسیڈر (ر) خالد محمود نے کہا کہ گوادر کی ترقی عوام پر مرکوز ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بلیو اکانومی کو فروغ دینے کے لیے مختلف پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جیسے کہ ایکسپلوریشن لائسنس کے لیے انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی کو درخواست دینا، جہاز سازی، بندرگاہ کی تعمیر وغیرہ۔
وائس ایڈمرل عبدالعلیم (ر) کا خیال تھا کہ بحری امور سے متعلق بے بصیرت سوچ کی ذمہ دار میری ٹائم کمیونٹی بھی ہے۔ اس کے علاوہ، اکیڈمیا میری ٹائم سیکٹر پر توجہ مرکوز کرنے والے کام کے ساتھ نہیں آرہا ہے اور اس طرح معیشت کے اس اہم شعبے کے بارے میں کم فہمی موجود ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل قاضی (ر) نے کتاب کی بے پناہ علمی قدر پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ سر کریک اور دیگرعلاقوں پر پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔
جواب دیں