مسئلہ کشمیر پر سیمینار کا اعلامیہ
کشمیر سے متعلق سیمینار کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ عالمی توجہ کو مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروانے اور دنیا میں ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے کے لیے جدید طرزِعمل اور سوچ کو اپنانا ہو گا۔
کشمیر سے متعلق سیمینار کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ عالمی توجہ کو مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کروانے اور دنیا میں ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے کے لیے جدید طرزِعمل اور سوچ کو اپنانا ہو گا۔
مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل ایک طویل جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے جس میں بے انتہا صبر، عملی نقطۂ نظر کی حامل جدید سوچ، اتفاق اور احتیاط سے ترتیب دی گئی منصوبہ بندی، کثیرالجہتی حکمتِ عملی جیسے عوامل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جن کا مقصد لوگوں کی کثیر تعداد، بین الاقوامی تنظیموں اور ریاستوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔
یہ مسئلہ کشمیر پر ہونے والے سیمینار کے اعلامیے کا لب لباب تھا جس پر دستخط ایک بین الاقوامی سیمینار کے اختتام پر کیے گئے۔ اس سیمینار کا عنوان تھا ”عالمی اور علاقائی امور کے درمیان کھڑا کشمیر کا بحران“۔ پروگرام کا انعقاد 28 نومبر 2019ء کو مظفرآباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) اسلام آباد نے پالیسی ریسرچ فورم (PRF) آزادکشمیر اور میری ٹائم اسٹڈی فورم (MSF) کے اشتراک سے کیا تھا۔
اعلامیہ پر دستخط آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر نے کیے۔ دستاویز پر دستخط کرنے والے دیگر افراد میں ایگزیکٹو صدر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد خالد رحمٰن، ماہر قانون اور MSF کے صدر ڈاکٹر سیّد محمد انور، قائم مقام چیئرمین PRFAJK محمد قادر ڈار، برطانوی مورخ اور سیاسی و معاشی دانشور ڈاکٹر روجر وین زونینبرگ، برطانیہ سے آئے مصنف اور سیاسی کارکن ڈاکٹر یشپال امرچند ٹینڈن، امریکی دانشور اور مصنف ڈاکٹر عاکس کلائٹز ڈیز، ترک دانشور ڈاکٹر حلیل ٹوکر، مقبوضہ کشمیر کے سینئر صحافی سیّدافتخار گیلانی، کابل کے ماہر تعلیم اور سیاستدان ڈاکٹر فضل الحادی وزین اور سیاسی کارکن فرزانہ یعقوب شامل تھے۔
اعلامیہ میں درج ذیل نکات شامل تھے:
- نہ تو جمود اور نہ ہی خاموشی کوئی آپشن ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ یہ ایک طویل سفر دکھائی دیتا ہے۔ ایک اچھی مربوط حکمتِ عملی اور ورک پلان کو یقینی بنانا ہوگا۔
- معمول کی کوششوں کے ساتھ ساتھ جدید اور تحقیقی طریقوں اور حکمتِ عملیوں کو وضع کرنا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں، اداروں، علاقائی اور عالمی تنظیموں اور ممالک کو ہم آواز بنایا جاسکے۔
- تنازع کی نوعیت کے مطابق فوری، قلیل مدتی اور حتمی اہداف کے لیے بیداری اور مصروفیت کا ہمہ پہلو ادراک؛ متعدد زبانوں میں مواد اور کشمیر پر مخصوص سفارت کاری وقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہندوتوا کے فاشٹ فلسفے اور ان کے طرزِ زندگی کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
- تحریک آزادیٔ کشمیر کا علاقائی کردار نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی واقعات اور کیس اسٹڈیز پر آگہی مہم میں زور دیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت اس نوعیت کے مقدمات لڑنے کے لیے قانونی ذرائع اپنانے کی ضرورت ہے۔
- اپنے درمیان اتفاقِ رائے کے ماحول کو برقرار رکھنا ہے۔ مقصد کے لیے اتفاقِ رائے کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ کسی خاص وقت پر حکمتِ عملی کے خلاف الزام تراشی خودکشی کی مانند ہوتی ہے۔ حق خودارادیت پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے جو انسانی حقوق کے ضمن میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور جس کی سب سے زیادہ مضبوط قانونی بنیادیں ہیں۔
- ایک طویل اور تندہی سے بھرپور تحریک کےلیے تیاری رکھیں۔ مقبوضہ کشمیر سب سے اہم محاذ ہے۔ انہیں ایسے مثبت پیغامات کی ضرورت ہے جن کےباعث اپنے عزم اور جذبے کو سربلند رکھ سکیں۔
- بھارتی مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کو صرف ریاست سے منصوب کارڈ پیش کرنے پر آزاد کشمیر کے دورے کی اجازت دیں۔ الزام تراشی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے اور اس سے عزم اور حوصلے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
- آزاد جموں و کشمیر کو اچھے طرزِحکمرانی کا ماڈل بنائیے۔
- کچھ معاملات میں ردعمل کا ہونا ناگزیر ہے تاہم اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ ایسے میں نقطۂ نظر پیش قدمی اور جدیدیت پر مبنی ہونا چاہیے۔
- ایک واحد نقطۂ نظر کام نہیں کرے گا۔ کثیرجہتی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے جو سیاسی، قانونی، تزویراتی، معاشی اور میڈیا جیسے عوامل پر بنائی گئی حکمتِ عملی کا مجموعہ ہوں۔
- اس بات پر زور دینا ہوگا کہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ بھی ایک آلہ کار ہے۔ ایسے میں معاصر دنیا میں ہائبرڈ جنگ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اپنے منصوبوں اور حکمت عملیوں میں اسے پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ہائبرڈ جنگ اور بیرونی دباؤ کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خودانحصاری کا حصول ناگزیر ہے۔
- تحریک کے مقامی کردار کو اجاگر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ غیرملکی تارکین وطن کو منظم کیجیے۔ حکومتیں بہت اہم ہوتی ہیں لیکن بالاآخر اہمیت رائے عامہ کی ہی ہوتی ہے۔
- بہت سے محاذ موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقین کے خدشات کو دور کیا جائے۔ جس کے لیے بہت سے فریقین کی رائے کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ایسے میں دستیاب ماحول اور وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔
- ہندوستانی منصوبوں اور حکمتِ عملیوں کو سمجھنے کے لیے تحقیق اور مانیٹرنگ کا عمل جاری رہنا چاہیے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب میکانزم کے ساتھ نئی آراء تشکیل دیں۔ ہندوستان گول پوسٹ کو تبدیل کرنے کی کوشش جاری رکھے گا جیساکہ وہ پحھلے ستر سالوں سے کرتا آرہا ہے۔
- دنیا آج جن مسائل کا سامنا کر رہی ہے ان میں صرف ایک کشمیر ہی نہیں ہے لیکن ان میں سے ایک اہم مسئلہ ضرور ہے اور درحقیقت ایسی کوئی عالمی حکومت نہیں ہے جو کہ اس سے جڑے انسانی المیہ کی بنیاد کا ادراک کرسکے۔
اس ساری صورتِ حال میں زور اس بات پر دیا جانا چاہیے کہ بطور عالمی شہری ہم سب کے پاس دو اختیارات ہیں:
أ. عالمی سطح پر حکمرانی کے اس مروجہ نظام کو ہی جاری رکھیں جو نام نہاد قومی مفاد کو فائز رکھنے پر مبنی ہے۔
ب. ایک متبادل نقطۂ نظر کو فروغ دینے کی کوشش کریں اور پُرامن، شفاف، انصاف پسند اور منصافہ عالمگیر نظام کے لیے جدوجہد کریں۔
جواب دیں