مجوزہ پیٹرولیم پالیسی ۲۰۱۲ء ۔ موجودہ توانائی بحران کا جائزہ
۲۷ مارچ ۲۰۱۲ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ’’مجوزہ پیٹرولیم پالیسی ۲۰۱۲ء ۔ موجودہ توانائی بحران کاجائزہ‘‘ کے موضوع پر سیمینارکے انعقاد کا پس منظر یہ صورتِ واقعہ ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم پالیسی ۲۰۱۲ء کا مسودہ جاری کیا ہے اور وہ اس مسودہ میں بہتر تبدیلیوں کے لیے ماہرین سے تجاویز کی طلب گار ہے۔
آئی پی ایس میں ہونے والے اس سیمینار کی صدارت سابق سیکرٹری وزارت پانی و بجلی جناب مرزا حامد حسن نے کی ۔ وہ آئی پی ایس میں انرجی پروگرام کی سٹیرنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ سیمینار کے کلیدی پیش کار جناب محمد عارف تھے جو انرجی لائرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ آئی پی ایس کے انرجی پروگرام کی سربراہ محترمہ امینہ سہیل نے سیمینار میں موڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔ آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے افتتاحی کلمات پیش کیے۔ سیمینار میں نمایاں علمی شخصیات، معروف تحقیق کاروں ، ماہرینِ معیشت، پالیسی تجزیہ کاروں، موجودہ اور سابقہ اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں، وکلاء، صنعتکاروں اور سول سو سائٹی کے ممبران نے شرکت کی۔ خصوصیت سے جن حضرات نے اظہارِ خیال کیا ان میں پالیسی تجزیہ کار اور سابق فیڈرل سیکرٹری جناب مسعود داہر، حکومتِ پاکستان کے سابق چیف اکانومسٹ اور آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن جناب فصیح الدین، انرجی سیکٹر کے ماہر جناب اے رحیم خان، راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر جناب امان اللہ خان اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پپرا) کے پہلے مینجنگ ڈائریکٹر جناب محمد خالد جاوید شامل ہیں۔
جناب محمد عارف نے اپنی پریزنٹیشن میں سیمینار کے شرکاء کے سامنے پاکستان کے موجودہ توانائی مسائل کے بارے میں ایک جامع جائزہ اور بجلی کی پیداوار کے ذرائع کی تفصیلات پیش کیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اٹھارویں دستوری ترمیم کے بعد درپیش مسائل کا ذکر کیا جس سے توانائی کا شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے کہا گزشتہ دو عشروں میں پاکستان نے سات پیٹرولیم پالیسیاں جاری کیں لیکن ایک مرتبہ بھی کسی گزشتہ پالیسی کے اثرات کو نئی پالیسی میں زیرِ غور نہیں رکھا گیا۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اغراض و مقاصد اور سفارشات میں بنیادی تبدیلیاں کیے بغیر ہر دوسرے تیسرے سال نئی پالیسی پیش کی جاتی۔ صورتِ حال میں مزید خرابی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ان پالیسیوں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ عشروں میں پاکستان میں آگے پیچھے آنے والی حکومتوں نے بار بار پٹرولیم پالیسی متعارف کروائی لیکن یہ تمام اقدامات حقیقی تبدیلی کے لیے نہیں بلکہ محض سیاسی فائدوں کے لیے تھے۔ ۲۰۱۲ء کی پیٹرولیم پالیسی کا مسودہ بھی گزشتہ پالیسیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اس میں گیس کی قیمتوں کا ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے جو گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرنے کا باعث ہوگا۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ دستور میں اٹھارویں ترمیم نے قدرتی توانائی کے حصول اور اس کی پیدواری سرگرمیوں پر بہت منفی اثر ڈالا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دستور کی دفعہ (۳) ۱۷۲اور دفعہ۱۶۱ کو مِلا کر پڑھا جائے تو مرکز اور صوبے کے اختیارات میں ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ جون ۲۰۱۰ء سے تیل اور گیس نکالنے او ر اس کی پیداوار کی سرگرمیاں رُک گئی ہیں۔ اُس وقت سے کسی نئے ایکسپلوریشن بلاک کے لیے سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں ہُوا ہے جبکہ اس سے پہلے نئے ایکسپلوریشن بلاکس کے لیے سال میں اوسطاً دو مرتبہ نوٹیفکیشن جاری ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دستوری ابہام جلدازجلد دور کیا جانا چاہیے۔
جناب محمد عارف نے توانائی کی پیداوار اور اس کی کھپت کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر کی موجودگی کے باوجود اسے توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ بجلی کی پیداوار کے لیے پاکستان زیادہ تر تیل اور گیس پر انحصار کرتا ہے۔ ۶۲ فی صد سے زائد بجلی اِن ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔ بجلی کی پیدوار کے لیے کوئلے کا استعمال نہ ہونے کے برابر یعنی 0.15فی صد ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کوئلے کے معیار اور ذخائر کی مقدار کے تخمینے کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں، ایک طبقہ اُس کو حقیقت سے کم تر اور دوسرا اسے حقیقت سے بعید تر تخمینہ باور کرتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کے اس بحران کی حالت میں ہم تھر کول منصوبے کو ختم کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ان کاخیال تھاکہ اگر تھرکول ذخائر کی دولت بڑھا چڑھا کر بیان کیے گئے تخمینوں کا 10فی صد بھی مان لی جائے تو بھی یہ ہماری توانائی اور ایندھن کی 50 سال کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ۲۰۱۲ء کی پالیسی میں تیل اور گیس کی جو قیمت پیش کی گئی ہے وہ علاقے کے دیگر پڑوسی ممالک بشمول بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
سیمینار کے صدر مرزا حامد حسن نے گفتگو کوسمیٹتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ملک میں بہت سی پٹرولیم پالیسیاں سامنے آئیں۔ پہلی مرتبہ ۱۹۹۱ء کی پالیسی میں صارفین کے لیے قیمت کے مسئلہ کو زیرِ غور لایا گیا۔ انہوں نے زور دیا کہ قیمتوں کاتعین کرنے کے ذمہ داران کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ توانائی کی قیمتیں لازماً صارفین کے لیے قابلِ برداشت حد کے اندر ہوں۔
مرزا حامد حسن نے تنقید کرتے ہوئے اسے پالیسی کے ذمہ داران کی ناکامی قرار دیا کہ وہ مقامی صنعت اور عام صارفین کے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکے اور پاکستان میں بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت 20روپے تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی ۲۰۱۲ء کا مسودہ بھی صارفین کے مسائل پر توجہ دینے میں ناکام ہے اس لیے کہ یہ قیمتوں کے مسئلہ سے بحث ہی نہیں کرتا یہ پالیسی صرف تیل نکالنے اور اس کی ترقی کے امور تک محدود ہے۔
۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشروں میں ملک کی قومی توانائی کا بیشتر انحصار پانی سے بنائی گئی بجلی پر تھا۔ پن بجلی سے تھرمل بجلی کی طرف منتقلی نے ایک کے بعد ایک نیا بحران پیدا کیا پہلے اس کا انحصار تیل سے پیدا ہونے والی بجلی پر تھا جب یہ آہستہ آہستہ بہت مہنگا ہوگیا تو تیل سے گیس کی طرف رجوع ہُوا۔ اس موقع پر یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ گیس کے ذخائر آخر کتنے عرصہ چلیں گے اور پھر اچانک محسوس کیا گیا کہ ملک میں تو گیس ہے ہی نہیں۔
انہوں نے فیڈریشن اور صوبوں کے درمیان انرجی سیکٹر کے حوالے سے اختیارات میں پیدا شدہ ابہام کے مسئلہ کو جلد ازجلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ گیس کی قیمت پر نظر ثانی کے نام پر اس میں مسلسل اضافہ اور اسے تیل کی قیمت کے برابر لانے کی پالیسی جسے ’’ناگہانی کیفیت کا حل‘‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے نیز محض مالی مراعات کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری کو دعوت دینا کبھی بھی کامیاب پالیسی نہیں سمجھی جائے گی۔ ان کا خیال تھا کہ پیٹرولیم پالیسی میں عدم یکسانیت اور بار بار تبدیلی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دُور رکھے گی۔ اگر پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کو لانے کے بارے میں ہمارے پالیسی ساز سنجیدہ ہیں تو انہیں دیگر عوامل کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا جن میں بہتر حالات کار، جان و مال کا تحفظ، امن و اطمینان کی کیفیت، توانائی کی فراہمی کا مؤثر نظام، بیوروکریسی کی جانب سے حمایت، پالیسیوں کا تسلسل ، پیش بینی کا قابلِ عمل نظام وغیرہ عوامل قابلِ ذکر ہیں۔
انہوں نے آئی پی ایس کی انرجی پروگرام سٹیرنگ کمیٹی کی کوششوں کو سراہا جس نے باخبر حلقوں کی بھر پورشرکت کے ساتھ ایک بہت معلومات افزا سیمینار کا انعقاد ممکین بنایا۔ اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس سیمینار میں پیش کی گئی تجاویز اور سفارشات زیرِ نظر پٹرولیم پالیسی کو حتمی شکل دینے میں مثبت کردار ادا کرنے کا باعث ہوں گی۔
آخر میں آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ آئی پی ایس کی جانب سے ایسے اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر گفتگو اور تبادلہ خیال کا یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا تاکہ ہمارے پالیسی ساز اور قانون ساز حلقے ماہرین کی آراء کی روشنی میں درست فیصلے کر سکیں۔
نوعیت: سیمینار رپورٹ
تاریخ : ۲۷ مارچ ۲۰۱۲ء
جواب دیں