لاپتہ افراد کے خاندانوں کی نوے فیصد خواتین شدید نفسیاتی امراض کا شکار ہوچکی ہیں: تحقیق
ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے تحت کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں لاپتہ افراد کے خاندانوں سےتعلق رکھنے والی نوے فیصد خواتین شدیدنوعیت کے ڈپریشن، بے چینی، ہسٹیریا اور دیگر نفسیاتی امرض میں مبتلا ہیں۔
یہ تحقیق 2 دسمبر 2016 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایک سیمینار میں پیش کی گئی جس کا عنوان تھا: "انکہا دکھ” (Grief Untold) جو کہ لاپتہ افراد سے قریبی تعلق رکھنے والی خواتین کے دکھ کی داستان ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق پنجاب اور خیبرپختونخوا سے ہے۔ یہ خواتین سماجی ومعاشی، طبی اور جذباتی عوامل کے باعث جن مسائل کا شکار ہو چکی ہیں اس کی ایک واضح جھلک اس سروے میں نظر آتی ہے۔ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی ٹیم نے ان دونوں صوبوں میں ایک سو خاندانوں سے رابطہ کیا اور ان کی خواتین سے تفصیلی انٹرویو لیا۔لاپتہ افراد کی متاثرہ خواتین سے ہونے والی گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کی ایک غالب اکثریت (تقریباً 90فیصد) معاشی محرومیوں اور انتہائی جذباتی پریشانیوں میں گھِر چکی ہے۔ ان خواتین میں بڑی تعداد بے چینی، ڈپریشن، تھکاوٹ، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، ہسٹیریا اور دیگر نفیساتی امراض میں مبتلا ہے۔تنظیم کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے اس دکھ کا اظہار کیا کہ ایسالگتا ہے ان برباد گھرانوں کو حکومت مکمل طور پر بھول چکی ہے۔ کسی نے کبھی بھی انکی بحالی کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے کمیشن کے سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے کہا کہ اگرچہ متاثرہ خاندانوں کی امداد اور بحالی ان کے کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں تاہم وہ جس قدر ہو سکے اس بات کی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ سماجی اور معاشی امداد انہیں فراہم کی جاسکے۔ ان کے مطابق اس وقت لاپتہ افراد کی حقیقی تعداد۱۲۷۶ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اوررکن قومی اسمبلی اسد عمر نے کہا کہ تحفظ پاکستان ایکٹ ۲۰۱۴ کے لئے جو جواز فراہم کئے گئے تھے ان میں یہ بھی شامل تھا کہ اس سے افواج پاکستان اور سیکورٹی اداروں کو مطلوبہ اختیارات مل سکیں گے جن سے لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا تاہم اس کے باوجود یہ سنگین مسئلہ برقرار ہے۔
مقررین میں سابق سیکرٹری جنرل خارجہ امور محمد اکرم ذکی، ڈی جی آئی پی ایس خالد رحمن، مرزا حامد حسن اور ماہر نفسیات عاصمہ ہمایوں شامل تھیں جبکہ یورپین یونین کے پاکستان میں سفیر جین فرانسوئس کوٹن نے سیمینار میں خصوصی شرکت کی۔
جواب دیں