سیمینار / کتاب کی رونمائی | پاکستانی معیشت کی صورت حال: مسائل، اسباب اور لائحہ عمل
قومی معیشت میں مسائل کی تشخیص اوران کے حل کے لیے اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان غیر ملکی انحصار کے جال سےنکلنے کے لیے ’واشنگٹن اتفاق رائے‘ کے متبادل کے طور پر ’اسلام آباد اتفاق رائے‘ تیار کرے۔ چونکہ کوئی ایک ادارہ معاشی نظام میں بہتری نہیں لا سکتا، جسے بین الاقوامی بولیوں پر انحصار کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے، اس لیے ملک کو معیشت کےچارٹر، مناسب معاشی تناظر، تعمیری ڈھانچے سے متعلق اصلاحات، اور طویل المدت منصوبہ بندی پر ایک قومی اتفاق رائے قائم کرنا چاہیے۔
مقررین نے ان خیالات کا اظہار 26 جولائی 2022 کوآئی پی ایس پریس کی طرف سے منعقد کیے جانے والے ایک سیمینار اور کتاب کی تقریبِ رونمائی کے دوران کیا جس کا عنوان تھا ”پاکستانی معیشت کی صورت حال: مسائل، اسباب اور لائحہ عمل“۔ یہ ارمغان خورشید سیریز کی چھٹی کتاب ہے جس میں تجربہ کار سیاست دان، نامور سکالر، ماہر معاشیات اورانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد کے بانی چیئرمین اور اب سرپرست اعلیٰ پروفیسر خورشید احمد کی قومی اہمیت کے مختلف موضوعات پر تحریروں اور تقاریر کو مرتب کیا گیا ہے۔
یہ سیمینارآئی پی ایس اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی( آئی آئی یو آئی)اسلام آباد کےشعبہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس( آئی آئی آئی ای)کے اشتراک سےمنعقدہوا۔اس تقریب کی مشترکہ صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اور آئی آئی یو آئی کے نائب صدرپروفیسر ڈاکٹر ایاز افسر نے کی جبکہ اس سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر عبدالرشید، ڈائریکٹر جنرل آئی آئی آئی ای؛ ڈاکٹر سید طاہر حجازی، سینئر ماہر تعلیم اور سابق ممبر (گورننس)، پلاننگ کمیشن آف پاکستان؛ اور ڈاکٹر معراج الحق، اسسٹنٹ پروفیسرآئی آئی آئی ای شامل تھے۔
پروفیسر خورشید احمد کے کام کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا کہ قومی فکر کے مسائل پر ان کی بصیرت اور قومی ترقی کے لیے کی گئی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اقتصادی تحفظ اور تعمیری ڈھانچے کے لیے اصلاحات کا نفاذ وقت کی ضرورت ہے۔
کتاب کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر معراج الحق نے اس بات کی تعریف کی کہ مصنف نے مختلف ادوارمیں پاکستان کی معاشی کارکردگی کے حوالہ سے اٹھائے گئےسوالات پر خوبصورت بحث کی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان وجوہات کا تجزیہ کیا جانا چاہیے جن کی وجہ سے ملک نے مخصوص اوقات میں اچھی معاشی کارکردگی دکھائی اور دوسرے میں خراب۔
انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی عوامل بشمول غیر ملکی قرضے، غیر ملکی امداد، ترسیلات زراور اندرونی عوامل بشمول ناقص طرزِ حکمرانی اور مقامی وسائل کا کم استعمال، ملک کی پست معاشی کارکردگی کی اہم وجوہات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ناقص حکمت عملیوں نے پاکستان کے معاشی ڈھانچے کو اس مقام پر دھکیل دیا ہے جہاں ایسا لگتا ہے کہ یہ ڈیفالٹ کے بہت قریب ہے۔
آگے بڑھنے کے لیے ملک کو پالیسیوں پر ملمع کاری کرتے رہنے کی بجائے،عملی اور طویل المدتی پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ملکی اداروں پر انحصار پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قومی اتفاق رائے پر مبنی ایک نیا متحرک نقطۂ نظر وقت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ’واشنگٹن اتفاق رائے‘ اور ’بیجنگ اتفاق رائے‘ کے متبادل کے طور پر ’اسلام آباد اتفاق رائے‘ وضع کرنےکی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز، سول اور ملٹری بیوروکریسی اور تمام سیاسی جماعتوں کو معاشی مسائل پر بات چیت کے لیے زور دے کر بلایا جائے تاکہ ملک کے اقتصادی مسائل کا طریقہ کار وضع کیا جا سکے۔ایک عظیم الشان مکالمےکے ذریعے اقتصادی چارٹر وضع کیا جائے۔ تب ہی پاکستان اپنی چھپی ہوئی اقتصادی صلاحیت کا ادراک کر سکے گا۔
ڈاکٹر سید طاہر حجازی نے ان خدمات پر پروفیسر خورشید کو خراج تحسین پیش کیا جو انہوں نے 22 سال سے زائد عرصہسینیٹ کے اندر بطور سیاستدان اور ماہر معاشیات عوامی مسائل کو اجاگر کرنے میں ادا کیں۔ انہوں نے کتاب میں معاشی مسائل سےنمٹنے اور متعددنظراندازکیے گئےاقتصادی پہلوؤں پرلکھی گئی بصیرت افروز تحریر کے لیےمصنف کی تعریف کی۔ انہوں نے قرضوں پر سود، پبلک ٹرانسپورٹ اور پی او ایل کی قیمتوں جیسے کئی مسائل پر مصنف کے خیالات سے اتفاق کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک کے معاشی نظام میں بڑی خامیاں قومی اتفاق رائے کی عدم موجودگی، گورننس کے مسائل اور اقتصادی پالیسی کی تشکیل میں حکمت عملی کی سمت کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو متبادل حل تلاش کرنے، اپنے وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے، نظام کو تبدیل کرنے اور معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے نئے فریم ورک متعارف کرانے پر طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی سطح پر معاشی فیصلہ سازی کے لیے متعلقہ معاشی ماہرین کی شمولیت انتہائی ضروری ہے اور یوں یہ فیصلہ سازی اجتماعی طور پر ہونی چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر ایاز افسر نے اس کتاب میں مسائل کی نشاندہی کرنے والے ایسےکئی بیانات کا حوالہ دیا جو معاشی نظام کے مایوس کن حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ معاشی نظام کی یہ تلخ حقیقتیں بات چیت کے فقدان کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ معاشی صورتحال ہمیشہ اس وقت متاثر ہوتی ہے جب بحث کی بجائے رائے اور فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں۔ بروقت جواب یہ ہونا چاہیے کہ اجتماعی مکالمے کا اہتمام کیا جائے اور ایک مناسب نقطہ نظر اپنایا جائے۔
حاضرین کو موجودہ حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے، خالد رحمٰن نے کہاکہ معاشی سرگرمیاں قومی پالیسی کے دیگر شعبوں سے الگ تھلگ نہیں کی جاسکتیں۔ اس سلسلے میں سیاسی استحکام اہم ہے کیونکہ یہ قومی اقتصادی مسائل پر پالیسیوں کے مستقل ہونےکی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے۔ تاہم ایک ہی وقت میں، اسٹریٹجک مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کو ایک پیکج کے طور پر ڈیل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ کسی حتمی مقصد کی عدم موجودگی، پالیسی کی تشکیل میں ایڈہاک ازم،دوسروں پر انحصار کا بحران، خود انحصارہونے کی سوچ کی عدم موجودگی، ترجیحات کا تعین نہ ہونا، غلط حکمت عملی اور ناقص طرز حکمرانی ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے والے چند اہم مسائل ہیں۔ آگے بڑھنے کے راستے کے طور پر، پاکستان کو مروجہ قطبیت کو بے اثر کرنا ہوگا، جس کا معیشت شکار ہوئی پڑی ہے، اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ مزید برآں، پالیسیوں میں تسلسل اور وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانا ہوگا، ورنہ ملک دوسروں پر انحصار اور معاشی عدم استحکام کے ایک شیطانی چکر میں پھنسارہے گا۔
جواب دیں