’جموں و کشمیر: ایک ماحولیاتی تباہی کی راہ پر اور اس کےمضمرات ‘
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے اندر تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، پاکستان اور خطے کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش ہیں ۔بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت اور بھارتی حکومت کی جانب سےیہ پہلو دانستہ نظر انداز کرنا ہی وہ سبب ہے جس سےکشمیر کے بھارتی مقبوضہ علاقے میں گلیشیئر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے اندر تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، پاکستان اور خطے کے لیے بڑھتی ہوئی تشویش ہیں ۔بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت اور بھارتی حکومت کی جانب سےیہ پہلو دانستہ نظر انداز کرنا ہی وہ سبب ہے جس سےکشمیر کے بھارتی مقبوضہ علاقے میں گلیشیئر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔یہ ماحولیاتی انحطاط جنوبی ایشیائی خطے کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے، کم از کم پاکستان کے لیےبہر صورت، جس کے آبی وسائل کا انحصار ہندوستان کے زیرِانتظام علاقے میں موجود ہمالیہ کے سلسلے سے نکلنے والے دریاؤں پر ہے۔
اس بے ضابطگی کی نشاندہی جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والےبرطانیہ میں مقیم معروف صحافی اورمصنف سید افتخار گیلانی نےایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کی جس کا عنوان تھا ’’جموں و کشمیر: ایک ماحولیاتی تباہی کی راہ پراور اس کے مضمرات‘‘۔27 دسمبر 2021 کو منعقدہ اس سیمینار کی صدارت چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین اور ادارے کی ریسرچ فیکلٹی نےاس میں شرکت کی۔
ویڈیو لنک کے ذریعے آن لائن سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، گیلانی نے انکشاف کیا کہ ہمالیہ کے عظیم سلسلے میں زیادہ تر گلیشیئرز – ہرمک سے لے کر ڈرنگ ڈرنگ تک، بشمول تھاجیواس، کولاہوئی، ماچوئی، کنگریز، اور شفات – پچھلے 50 سالوں میں نمایاں طور پر تقریباً 4,000-5,000 میٹر (13.123-16.404) فٹتک کم ہو چکے ہیں۔
انہوں نے خطے میں بڑھتی ہوئی، بلا روک ٹوک انسانی سرگرمیوں اور ہندوستانی حکومت کی طرف سے مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے غیرتصدیق شدہ سیاحت کو گلیشیئرز کے اس تیزی سے پگھلنے کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔
اسپیکر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی سیاحت کو سیاست سے جوڑنے کے باعث کشمیر کے پہلگام خطے میں تباہی آئی ہے، جو امرناتھ مندر کے بیس کیمپ کے طور پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روزانہ 20,000-25,000 یاتریوں کو امرناتھ غار میں جانے کی اجازت دی گئی تھی، جو پہلگام اور سونمرگ کے ماحولیاتی لحاظ سے نازک علاقے میں واقع ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ ماحولیاتی مداخلت علاقے کے ماحول کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہی ہے۔
گیلانی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جہاں ہندوستانی حکومت نے اپنے جائز علاقے میں موجود بہت بڑے گلیشیئرز کے تحفظ کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں، وہ کشمیر میں گلیشیئرز کے تحفظ کے لیے ایسے ہی اقدامات کو پس پشت ڈال رہی ہے جو پاکستان کے دریائے سندھ کے نظام کو پانی فراہم کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف گلیشیئرز ہی نہیں ہیں بلکہ کشمیر کے جنگلات کو بھی اس طرح کی نظر اندازی کا سامنا ہے۔ 37% سے 11% تک کم ہونے کے بعد، مقبوضہ علاقے میں جنگلات ایک اور اہم ماحولیاتی جزو ہیں جو فوری توجہ چاہتے ہیں۔
اجلاس کے شرکاء نے ان انکشافات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ بھارت کے مقبوضہ علاقے میں ماحولیاتی تباہی کو کشمیر پر اپنے سرکاری بیانیے کا حصہ بنائے تاکہ دنیا کی توجہ اس بڑھتے ہوئے بحران کی طرف مبذول کرائی جا سکے جس کے نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک پربلکہ اس سے بھی آگےخطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
جواب دیں