تکثیریت بمقابلہ اخراجیت: ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا جائزہ
نریندر مودی بھارت میں ہندوتوا شدت پسندوں کی سربراہی کر رہے ہیں: راجہ ظفرالحق
قائد ایوان سینیٹ آف پاکستان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ بھارت میں بڑھتے ہوئے نسلی و مذہبی امتیاز ہندو انتہا پسندی اور اقلیتوں پر تشدد کے واقعات کو انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔ ہندوستان دنیا کے سامنے اپنے آپ کو سیکولر اور جمہوری ملک کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن اس کا اصل چہرہ انتہا پسند ہندو کا ہے جوکہ وہاں بسنے والے مسلمان، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے لیے خطرناک ہے۔
سینیٹر راجہ ظفرالحق انسٹی ٹیوٹ پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیرِاہتمام ”تکثیریت بمقابلہ اخراجیت، ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کا جائزہ“ کے موضوع پرمورخہ 22 فروری 2018 کو منعقدہ ایک سیمینار کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھارت میں بڑھتی ہوئِ مذہبی منافرت، انتہاپسندی اور تشدد کی لہر کی سربراہی کر رہے ہیں۔ جب سے ان کی حکومت آئی ہے مذہبی منافرت انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور یہ سب کچھ نیشنلزم کی آڑ میں کیا جا رہا ہے جس سے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو مذہبی انتہا پسندی کے سبب مسائل کا سامنا ہے۔
قبل ازیں بھارت میں پاکیستان کے سابق سفیرعبدالباسط نے افتتاحی اجلاس میں اپنا کلیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی آئین کے مطابق تمام نسلوں اور قومیتوں کو مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہونے چاہییں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ ہندو انتہاپسندی سے بھارت کی مختلف اقوام میں سماجی و اقتصادی توازن بگڑ گیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا کی تاریخ مذہبی انتہاپسندی، نفرت اور تشدد سے بھری پڑی ہے جس کے سبب ذات پات کا نظام، ہندو لیڈرشپ کا پاکستان کے وجود سے انکارہے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں مودی کے دورِحکومت میں یہی تشددپسندی اور بڑھ گئی ہے جس سے بھارت کے اہل دانش اور عوام پریشان ہیں کہ اگر نریندر مودی آئندہ انتخابات میں دوبارہ برسراقتدار آ گئے تو مذہبی منافرت اور تشدد کا سیلاب ان کے ملک کو کہاں لے جائے گا۔
یہ حقیقت واضح ہے کہ مودی صاحب ماضی کی طرح ایک منصوبے کے تحت انتہاپسندی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس لیے خدشہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے حالات مزید خراب ہوں گے۔ کشمیریوں کے خلاف بھارت حکومت کے اقدامات میں شدت آئے گی اور مسئلہ کشمیر کے حل میں پیشرفت کے امکانات مزید کم ہوں گے۔
اس سے قبل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن نے سیمینار کے موضوع کا تعارف کرایا اور کہا کہ بھارت ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کی مشترکہ سرزمین ہے۔ بھارتی آئین میں ان کے حقوق کو مساوی تسلیم کیا گیا ہے لیکن بھارت کا ماضی مذہبی منافرت، انتہاپسندی اور تشدد کے واقعات سے پُر ہے جس میں گذشتہ عرصے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ سیمینار کا مقصد اس مسئلے کا علمی سطح پر معروضی جائزہ لے کر حقائق کو سامنے لانا ہے۔ انہوں نے محققین اور سکالرز کو اپنی تحقیقات پیش کرنے پر شریہ ادا کیا۔
سیمینار کے دیگر اجلاسوں میں سابق سیکرٹری فنانس ڈاکٹر مسعود خان نے ابھرتے ہوئے ہندتوا، تصوروبنیاد؛ ممتاز صحافی سید افتخار گیلانی نے انڈیا میں بڑھتی ہوئِ انتہاپسندی حقائق کی روشنی میں؛ قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر مجیب افضل نے بھارت میں بڑھتی ہوئِ انتہاپسندی کے اسباب اور اس کے علاقے پر اثرات؛ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے سینئر ریسرچ فیلو عرفان شہزاد نے ہندوتوا کی اقتصادیات؛ سابق سفیر ضمیر اکرم نے ہندوتوا اور بھارتی سیاست؛ کشمیری صحافی مرتضیٰ شبلی نے بڑھتی ہوئی ہندوتوا، حقائق اور اس کے عالمی جہتیں کے موضوع پہ اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹر رفعت حسین نے کی جبکہ گفتگو کا آغاز ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) خالداقبال نے کیا، جبکہ تیسرے سیشن میں یہ فرائض بالترتیب سابق سفیر جلیل عباس جیلانی اور ڈاکٹر جنید احمد اور چوتھے سیشن میں ڈاکٹر وقار مسعود خان اور سید محمد علی نے ادا کیے۔ سیمینار میں پاکستان کے دیگر شہروں اور بیرون ملک سے ممتاز سکالرز، راولپنڈی، اسلام آباد کی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات، اساتذہ، اسلام آباد میں موجود سفارتی اہلکاروں، شہر کے ممتاز دانشوروں، صحافیوں، سول و ملٹری اداروں سے تعلق رکھنے والے سابق افسران نے بھی شرکت کی۔
جواب دیں