’افغانستان میں پیش رفت: پاکستان اور خطے کے لیے مضمرات‘
افغانستان کی صورتحال پاکستان کی طرف سے فعال کردار کا جواز فراہم کرتی ہے: ماہرین
افغانستان کی صورتحال پاکستان کی طرف سے فعال کردار کا جواز فراہم کرتی ہے: ماہرین
افغانستان میں طالبان کی طرف سے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے جارحانہ انداز اوران کی تیز رفتار فتوحات نے جنگ زدہ ملک میں امن عمل کی کامیابی کوغیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے جو بین الافغان مذاکرات میں تعطل اور خطے میں امن اور استحکام کے لیے خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ حالات بد سے بدتر ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے، پاکستان کو خانہ جنگی کے پھیلاؤ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سرگرم ہونا چاہیے چہ جائیکہ یہ بڑے پیمانے پر شروع ہو جائے۔
یہ ’افغانستان میں پیش رفت: پاکستان اور خطے کے لیے مضمرات‘کے عنوان سے ہونے والے ایک اجلاس کا مرکزی نکتہ تھا جس کا انعقاد آئی پی ایس نے 15 جولائی 2021 کو کیا ۔
مقررین میں پاک افغان امور کے ماہر ایمبیسیڈر(ر) ایاز وزیر، ایریا اسٹڈی سنٹر ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی انچارج ڈاکٹر سعدیہ سلیمان بخاری، اور اناڈولو ایجنسی برائے ایشیا پیسیفک کے علاقائی چیف نمائندے اسلام الدین ساجد شامل تھے۔ سابق ایمبیسیڈر اور آئی پی ایس کے وائس چیئرمین سیّد ابرار حسین نے اجلاس کی صدارت کی اور اس میں نظامت کے فرائض ادا کیے، جبکہ چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے اختتامی کلمات پیش کیے۔
ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین کا مؤقف تھا کہ دوحہ معاہدہ جو افغانستان سے امریکی انخلا کی بنیاد کا کام کرتا ہے، اس میں ایک بین الافغان ڈائیلاگ شق شامل ہے جس کے تحت جنگ بندی اور آئندہ کے سیاسی روڈ میپ کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ تاہم ، افغان حکومت کی جانب سے دوحہ معاہدے کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے میں تاخیر کے سبب مذاکرات تعطل کا شکار ہیں ، جس کے نتیجے میں متعدد بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
ایاز وزیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام لانا پاکستان، چین اور ایران سمیت علاقائی ممالک کے مفاد میں ہے جو علاقائی رابطوں اور جغرافیائی اقتصادیات کے لیے کوشاں ہیں جب کہ امریکہ-ہند گٹھ جوڑ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ہونے والےرابطوں کے منصوبوں کو تباہ کرنے کے لیے غارتگر کا کردار ادا کر سکتاہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان نے افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی بنیاد پر پڑوسی ممالک کے ساتھ براہ راست اور دوستانہ تعلقات استوار کیے ہیں۔
پاکستان کے لیے موجودمضمرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سعدیہ نے کہا کہ اگر طالبان اقتدار میں آ جاتے ہیں تو ان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں پاکستان کو محتاط پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس فیصلے سے داخلی سلامتی کے امور متاثر ہوں گے۔
انہوں نے خانہ جنگی بڑھنے کی صورت میں افغان معاشرے کی تقسیم اور افغان مہاجرین کی پاکستان میں آمد پر خبردار کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغان فوج کے بھگوڑا پن سے پاکستان میں چھوٹے ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوگا اور اس طرح ملک میں بدامنی پھیلے گی۔
موجودہ افغان حکومت کو گرانے کے لیے طالبان کی فوجی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام الدین ساجد کا خیال تھا کہ امریکی افواج کے مکمل انخلاسے قبل عسکریت پسند گروپ افغانستان کے بڑے شہروں میں داخل نہیں ہوگا۔
ساجد کے مطابق، طالبان شورش کو ختم کرنے کے لیے اپنے مخالفین سے بات کرنے پر راضی ہیں لیکن ہندوستان خانہ جنگی کو تیز کرنے کے لیے سرکاری فوجیوں کو اسلحہ بھیج کرجلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ نیمروز اور افغانستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والے بلوچ عسکریت پسندوں کو بھی بھارت طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے مسلح کر رہا ہے۔
اجلاس کے اختتام پرخالد رحمٰن نے کہا کہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے باوجود امریکہ اتحادیوں کی بین الاقوامی اور علاقائی قوتوں کی مدد سے پاکستان اور چین کےمقابلے پرخطے میں اپنےتزویراتی مقاصد پر عمل پیرا رہے گا۔
انہوں نے خطے میں آنے والے بحرانوں سے بچنے کے لیے پاکستان میں طرزِحکمرانی کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ امریکی حکومت کی واپسی کے تناظر میں اپنے پیروں پر قائم رہے۔ اگر افغان مہاجرین خانہ جنگی کے نتیجے میں پاکستان میں داخل ہونا شروع کردیں تو پاکستان کو اس انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بھی تیاری کر رکھنی چاہیے جو ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔
جواب دیں