‘افغانستان میں ابھرتا ہوا منظرنامہ: پاکستان کے لیے اثرات اور پالیسی کے اختیارات’
طالبان کو افغانستان میں طویل مدّتی امن کے قیام کے لیے مشمول حکومت کو یقینی بنانا ہوگا
طالبان کو افغانستان میں طویل مدّتی امن کے قیام کے لیے مشمول حکومت کو یقینی بنانا ہوگا
کابل میں طالبان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد تمام سیاسی عناصر کی شمولیت کے ساتھ ایک جامع حکومت کے قیام اور فتحِ مکّہ کے ماڈل پر عام معافی کے اعلان کے ذریعے ہی جنگ سے تباہ حال ملک میں امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا
سکتا ہے، جبکہ اس قسم کے اقدامات کے ذریعے ہی طالبان افغانستان میں اپنی حکومت کو پاکستان سمیت دیگر علاقائ ممالک سے تسلیم کروا سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار ‘افغانستان میں ابھرتا ہوا منظرنامہ: پاکستان کے لیے اثرات اور پالیسی کے اختیارات’ کے عنوان سے 17 اگست 2021 کو ہونے والی ایک نشست میں کیا گیا جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس]، اسلام آباد نے طالبان کے ہاتھوں کابل کے زیر ہونے اور اس سے پاکستان اور دیگر علاقائ ممالک پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر روشنی ڈالنے کی غرض سے کیا تھا۔
اس نشست کی صدارت آئ پی ایس کے وائس چئیرمین اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر سیّد ابرار حسین نے کی جبکہ اختتامی کلمات ادارے کے چئیرمین خالد رحمٰن نے ادا کیے۔ نشست سے خطاب کرنے والے دیگر مقررین میں دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار بریگیڈئیر [ر] سید نذیر مہمند، افغان امور کے ماہر ایمبیسیڈر [ر] ایاز وزیر، ائیر کموڈور [ر] خالد اقبال، نیشسنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلیٹی کے ڈین ڈاکٹر تغرل یامین، سینئیر صحافی فیض اللّہ خان اور آئ پی ایس کے سینئیر ایسو سی ایٹ اور سابق سفیر تجمل الطاف شامل تھے۔
خالد اقبال کا کہنا تھا کہ واشنگٹن افغانستان میں ہونے والی شرمندگی کو مٹانے کے لیے کسی قربانی کے بکرے کا متلاشی ہے اور اسی وجہ سے مغربی میڈیا کے کئ حلقوں میں امریکہ کی اس ناکامی کا زمّہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے اس کے لیے "ڈوُ مور” کی بازگشت سنائ دے رہی ہے۔
انہوں نے مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان کی امداد بند کرنے کی مخالفت کی اور زور دیا کی افغانستان کی تعمیرِنو میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان عوامی رابطے بڑھانے اور کاروباری و تجارتی سرگرمیاں جاری رکھنے پر بھی زور دیاجبکہ اس کے ساتھ پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ اس موقع پر افغانستان کے ساتھ کسی تنازعاتی موضوع کو اٹھانے سے اجتناب کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف تو افغانستان سے جلد بازی میں انخلاء نے امریکہ کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف بھارت کے دوکلام اور لداخ میں چین کے ہاتھوں اٹھائے جانے والی ہزیمت نےعلاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے امریکہ کے بھارت پر کیے جانے والے انحصار کو بھی متاثر کیا ہے۔
بریگیڈئیر [ر] سید نذیر کا کہنا تھا کہ طالبان نے طاقت کے حصول کے لیے ایک کثیر جہتی حکمتِ عملی اپنائ۔ ایک طرف تو انہوں نے علاقائ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنے کے لیے ان کے دورے کیے، تو دوسری طرف انہوں نے افغانستان کے بارڈر ایریاز کا کنٹرول حاصل کر کے کسی مزاحمت کے امکانات کو کم ترین کر دیا، اور یوں وہ کسی خونریزی کے بغیر کابل پر بھی قابض ہو گئے۔
انہوں نے پاکستان کو سرحدی علاقوں کی کڑی نگرانی کا مشورہ بھی دیا کیونکہ غنی حکومت کے جانے کے بعد بھارت ایک زخمی درندے جیسا برتاو کر رہا ہے۔
ایاز وزیر نے طالبان کی طرف سے خواتین کی تعلیم، انسانی حقوق اور آزادیِ رائے کی یقین دہانے کے اعلانات کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ طالبان تمام سیاسی و لسّانی عناصر کو شامل کرتے ہوئے ایک جامع حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کسی جامع حکومت کے قیام کی صورت میں پاکستان کو افغانستان کی اس نئ حکومت کو تسلیم کر لینا چاہیے اور سیاسی رہنماوں اور صحافیوں پر مشتمل ایک وفد بھی وہاں بھیجنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے، اور دوطرفہ تعلقات بہتر بنائے جا سکیں۔
ڈاکٹر تغرل یامین نے کہا کہ پاکستان کو نئ افغان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بننا چاہیے کیونکہ یہ بات تاریخ میں افغانستان کے لوگوں کی طرف بڑھنے والے ایک دوستانہ قدم کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اسکے علاوہ پاکستان کو افغانستان کے اس کڑے وقت میں سیاسی، سفارتی اور معاشی امداد کرنے کے ساتھ ساتھ افغانی طالب علموں کے لیے معیاری تعلیم کے جصول کے لیے بھی مدد کرنا چاہیے۔
نشست کے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے نئ افغان حکومت کے تعمیری ایجنڈے کے حوالے سے ایک مثالی خاکہ نمونے کے طور پر پیش کیا جس میں قدرتی وسائل کے بہتر استعمال، علاقائ روابط بڑھانے اور دو طرفہ اور کثیرالجہتی تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے متعلق اہم نکات پیش کیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت بھی ایک علیحدہٰ مطالعے کا تقاضا کرتی ہے کی گزشتہ بیس سالوں میں امریکہ نے افغانستان میں کتنی رقم باقاعدہ عوام کے لیے فلاحی اور تعمیری کاموں میں خرچ کی اور کتنی بد عنوان حکمرانوں کے اوپر لٹائ-
رحمٰن کا خیال تھا کہ افغانستان امریکہ اور یورپ کی امداد کے بغیر بھی چل سکے گا کیونکہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ تُرکی کی طرح افغانی پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں جس سے دو طرفہ فائدہ ہو گا مگر اس کے لیے پاکستان کو ان کو ضروری سہولیات مہیا کرنی ہوں گی۔
رحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جس کے ذریعے افغان پناہ گزین عزت کے ساتھ اپنے علاقوں کو واپس لوٹ سکیں ۔ ان کا خیال تھا کہ اس سلسلے میں کرکٹ ڈپلومیسی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ سرحد کے دونوں اطراف رہنے والے کرکٹ میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ کھیل ان کو قریب لانے میں مددگا ثابت ہو سکتا ہے۔
جواب دیں