افغانستان: مُلّا عمر سے اشرف غنی تک

افغانستان: مُلّا عمر سے اشرف غنی تک

Afghanistan---Mulla-Umar-se-Ashraf-Ghani-Tak-thumb آئی پی ایس پریس کے تحت شائع ہونے والی کتاب ”افغانستان: ملا عمر سے اشرف غنی تک“ افغانستان کے بارے میں ایک منفرد پیشکش ہے۔

Afghanistan---Mulla-Umar-se-Ashraf-Ghani-Tak

مصنف: ایمبیسیڈر [ر] سیّد ابرار حسین
سال: ۲۰۲۰
صفحات: ۲۷۴
جلد: مجلّد
آئ ایس بی این: ۹۷۸-۹۶۹-۴۴۸-۷۸۵-۴
قیمت: ۹۰۰ روپے

فہرستِ مضامین

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کتاب کا تعارف

آئی پی ایس پریس کے تحت شائع ہونے والی کتاب ”افغانستان: ملا عمر سے اشرف غنی تک“ افغانستان کے بارے میں ایک منفرد پیشکش ہے۔ یہ ایک ایسے پاکستانی سفارت کار کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے جو بہت سے اہم واقعات کا شاہد ہی نہیں بلکہ حصہ رہا۔ جناب ابرار حسین پاکستان کی طرف سے ایک سے زائد بار افغانستان  میں تعینات رہے جبکہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ میں بھی  ان کی خدمات افغانستان امور سے متعلق رہیں ۔ مصنف نے ایک  سفارت کار کے طور پر اپنے قیامِ افغانستان کے دوران تاریخ کو بنتے اور بگڑتے دیکھا اور بہت سے اہم واقعات کا قریبی مشاہدہ کیا۔ اس میں آپ کو ملّا عمر کے زمانے کے واقعات بھی ملیں گے اور اشرف غنی کے دور کی باتیں بھی،  پاک افغان تعلقات کی تاریخ بھی اور افغانستان میں امن عمل کی تفصیلات بھی۔

اس کتاب کی منفرد بات  یہ ہے کہ اس میں زیادہ تر چشم دید واقعات بیان کیے گئے ہیں جن کا  معروضی انداز میں احاطہ کرتے ہوئے مصنف نے  تجزیے کی زمہ داری قاری پر چھوڑ دی ہے ۔ کتاب کے آخر میں ابرار صاحب نے پاک افغان تعلقات کی بہتری کیلئے ایک قابل قبول لائحہ عمل بھی تجویز کیا ہے جس پر دونوں ممالک کے پالیسی حلقوں میں صدق دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تجاویز  نہ صرف دو طرفہ پاک افغان  تعلقات، بلکہ پورے خطے میں دائمی امن کیلئے مثبت پیش رفت کے لیے سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔

صاف، سلیس اور رواں اردو زبان میں لکھی گئی یہ کتاب اس اعتراض کا بھی ایک عملی جواب ہے کہ دورِجدید میں قومی زبان میں بین الاقوامی سیاست وتعلقات جیسے موضوعات پر علمی وتحقیقی کام کرنا مشکل ہے۔ امید ہے آئی پی ایس پریس کی جانب سے شائع کردہ یہ کتاب بین الاقوامی اور علاقائی سیاست وتعلقات اور  بالخصوص افغانستان کے موضوع پر دلچسپی رکھنے والے افراد کو پس منظر و پیش منظر سمجھنے میں مدد دے گی۔

مصنف کا تعارف

سید ابرار حسین ۱۹۵۸ میں پشاور میں پیدا ہوئے۔انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کرنے کے بعدسرکاری ملازمت اختیار کی اور۳۵سال پاکستان کی وزارت خارجہ میں خدمات سرانجام دیں۔اس دوران وہ نیپال، کویت اور افغانستان میں سفیر بھی رہے۔ دو سال پہلے وہ وفاقی سیکریٹری (سپیشل سیکریٹری ، وزارت خارجہ) کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

ابرار حسین اپنی تمام سرکاری مصروفیات کے باوجود اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار سے کبھی غافل نہیں رہے۔اُن کی شاعری کا مجموعہ ـ ’’تُم جلائو تو دیا‘‘ کے نام سے ۲۰۱۳میں شائع ہواجسے اباسین آرٹس کونسل کی طرف سے عبدالرب نشتر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ عروض کو عام فہم اور آسان بنانے کے لیے انھوں نے ’’اردو بحریں‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جبکہ تیسرا ایڈیشن زیر طبع ہے۔اُن کے تنقیدی مضامین بھی مختلف ادبی مجلّوں میں چھپتے رہے ہیں۔

افغانستان میں ان کا قیام دو مختلف ادوار میں رہا  طالبان کے زمانے میں وہ قندھار میں قونصل جنرل رہے اور پھر تیرہ سال بعد وہ سفیر کی حیثیت سے کابل گئے۔ اپنے قیامِ افغانستان کے دوران  انھوں نے تاریخ کو بنتے اور بگڑتے دیکھا اور بہت سے اہم واقعات کا قریبی مشاہدہ کیا۔یہ کتاب اُنہی تجربات و مشاہدات کا مجموعہ ہے۔اس میں آپ کو ملّا عمر کے زمانے کے واقعات بھی ملیں گے اور اشرف غنی کے دور کی باتیں بھی، پاک افغان تعلقات کی تاریخ بھی اور افغانستان میں امن عمل کی تفصیلات بھی۔اس کتاب کی منفرد بات  یہ ہے کہ اس میں زیادہ تر چشم دید واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

 

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے