’آنٹولوجیکل (ان) سیکیورٹیز آف افغانستان اینڈپاکستان اینڈ ریزلٹنگ ریپرکشنز آن دی پشتون پاپولیشن آف پاکستان‘
طویل مدتی امن قائم کرنےاور پاک افغان تعلقات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے شواہد کی بنیاد پر حاصل شدہ معلومات پر مکالمہ کرنے پر زور
افغانستان اور پاکستان میں آبادقوم پرست نسلیں آنٹولوجیکل عدم تحفظ کی وجہ سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑے کا شکار رہی ہیں، جس سے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف موجود آبادی پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے دائمی حل کے لیے تمام متعلقہ فریقین بالخصوص دانشوروں اور میڈیا کے درمیان شواہد کی بنیاد پر حاصل شدہ معلومات پرمکالمے کی ضرورت ہے تاکہ طویل مدتی امن قائم کرنے اور باہمی تعاون حاصل کرنے کے لیےان تاریخی اختلافات کو ختم کیا جاسکے جس کی پاکستان اور افغانستان کے عوام کو اشد ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار 20 جولائی 2022 کو آئی پی ایس میں منعقدہ ایک علمی اجلاس میں ہواجس کا عنوان تھا ’آنٹولوجیکل (ان) سیکیورٹیز آف افغانستان اینڈپاکستان اینڈ ریزلٹنگ ریپرکشنز آن دی پشتون پاپولیشن آف پاکستان‘۔
اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی اور کلیدی مقرر کے طور پر ڈاکٹر فرحت تاج، ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف ٹرومسو، ناروے نے خطاب کیا۔ آئی پی ایس کے ایسوسی ایٹ بریگیڈیئر (ر) سید نذیر مہمند، سابق ایم این اے صاحبزادہ محمد یعقوب خان ، تحریک نفاذ شریعت محمدی (ٹی این ایس ایم) کے رہنما فضل اللہ فاروق نے بحث میں حصہ لیا۔ ایمبیسیڈر( ر) ایاز وزیر، پاکستان سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی کے ڈائریکٹرپروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، سابق وفاقی سیکرٹری مرزا حامد حسن، مصنف اور محقق ڈاکٹر لطف الرحمٰن، آئی پی ایس سینئر ایسوسی ایٹ امان اللہ خان اورآئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر سیف الرحمٰن ملک نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔
ڈاکٹر فرحت تاج نے اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان تعلقات کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پرانے دور سےعصر حاضر تک شناخت کے تصادم ، آنٹولوجیکل عدم تحفظات اور اس سے متعلقہ مختلف امور کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ان متضاد شناختوں کے آپس میں ٹکراؤ نے پشتون نسل کی آبادی کے لیے کچھ خاص نوعیت کے اثرات مرتب کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان شناخت بنیادی طور پر اس کی پشتون شناخت ہے، جو پاکستان کے اسلامی تشخص کے اندرونی اور بیرونی پہلوؤں سے متصادم ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ افغان نسلی شناخت کو پاکستان کے اسلامی تشخص کے اظہار سے خطرہ محسوس ہوتا ہے، جس کی وجہ پاکستان کے بارے میں ان کا یہ خیال ہے کہ یہ برطانوی ہندوستان کی جانشین ریاست کا تصور برقراررکھے ہوئے ہے بالخصوص نوآبادیاتی پنجاب کے بارے میں افغان تصورات کوزیادہ اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہاں سے اونٹولوجیکل عدم تحفظات پیدا ہوتے ہیں جو دونوں ریاستوں کو ‘علمی اضطراب’ کی حالت میں دھکیلتے ہیں۔
ان آنٹولوجیکل عدم تحفظات نے دونوں ریاستوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی اپنی شناخت کو مضبوط بنانے کے لیے بیانیے تشکیل دیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان اپنے عدم تحفظات کو گرفت میں رکھنے کے لیے پرامن کے ساتھ ساتھ خطرناک طریقے اختیار کر رہا ہے، جبکہ پاکستان وقتاً فوقتاً مختلف اقدامات کے ذریعےآپس کے تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف توجہ دے کر عدم تحفظات کو دور کرتا رہا ہے۔
ڈاکٹر فرحت نے نتیجہ اخذ کیا کہ باہمی کوششوں، کھلے مباحثوں، بیانیہ کی پیشرفت اور قومی اتفاق رائے سے اس دباؤکو کم کیا جا سکتا ہے جوپشتون تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے افغان حکومت پرڈالا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی تشخص کی شناخت کو دونوں ریاستوں کی آنٹولوجیکل سیکورٹی کو برقرار رکھنے میں مددگار بنایا جا سکتا ہے۔
بحث کے دوران مقررین کا مؤقف تھا کہ اگرچہ ڈیورنڈ لائن کا تاریخی پس منظر ہے لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ پاک افغان تنازعات کے حل کے حوالے سے شرکاء نے رائے دی کہ امن کے ساتھ رہنے کے لیے دونوں ریاستوں کو اپنے باہمی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے جس کےلیے قومی اتفاق رائے کے ساتھ پرامید رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں